کالم

پی ایس ایل کا میلہ اور ججوں کا شوق دید

فروری 14, 2023 5 min

پی ایس ایل کا میلہ اور ججوں کا شوق دید

Reading Time: 5 minutes

میڈیا پر ایک دلچسپ مراسلہ گردش کر رہا ہے،یہ مراسلہ لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر ایڈیشنل رجسٹرار نے ملتان کرکٹ سٹیڈیم کے منیجر کو لکھا ہے اور اس خط کے ذریعے کرکٹ حکام کو بتایا گیا ہے کہ ملتان بنچ میں کام کرنے والے جج صاحبان خود بھی اور ان کے خاندان والے بھی ملتان میں ہونے والے پی ایس ایل ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب اور دیگر میچز دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے 30 وی وی آئی پی پاسز، 30 گاڑیوں کے لیئے سرخ سٹکرز افتتاحی تقریب کے لیئے مہیا کیے جائیں جبکہ ملتان میں ہونے والے باقی ماندہ میچز دیکھنے کے لیےبھی ہر میچ کے 25 وی وی آئی پی پاسز علیحدہ سے فراہم کیے جائیں۔

مزید واضح کیا گیا ہے کہ یہ پاسز سٹیڈیم میں قائم چئرمین اینکلو ژر (باکس) میں نصب نشستوں کے لیئے ہونے چاہئیں، جہاں صرف مہمان خصوصی بیٹھا کرتے ہیں۔ بظاہر تو میچ دیکھنے کی خواہش و شوق کا یہ اظہار ہرگز قابل اعتراض نہیں،جج صاحبان بغیر مراسلہ بھجوائے بھی اپنے’وسائل‘سے یہ مفت پاس حاصل کر سکتے تھے اعلیٰ عدلیہ کا جو ’مقام‘ہے اس میں ایسے پاسز کا حصول کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
اعتراض تو اس بات پر ہے کہ وی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کی علمبردار عدلیہ اگر اپنے گھر والوں کے شوق کی تسکین کے لیئے اپنا عہدہ و دفتر کا استعمال کریں گے تو عدالتوں میں بنچ کے جانب سے دیے گئے بھاشن پر سے عوام کا اعتماد اٹھ جائے گا۔جج صاحبان کا کوڈ آف کنڈکٹ تو ویسے بھی انہیں ایسی پر ہجوم اور عوامی تقریبات سے دور رہنے کا پابند کرتا ہے اور نہ ہی منصفوں کے پاس اتنا وقت ہو سکتا ہے کہ وہ افتتاحی تقریب کے ساتھ ساتھ دیگر تمام میچز دیکھنے کے لیئے اپنا وہ قیمتی وقت اپنے شوق کی تسکین میں ضائع کریں جو کہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے لیئے بھی ناکافی ہے۔

اسی وقت کی کمی کے باعث عدلیہ میں لاکھوں مقدمات زیر التواء ہیں اور انصاف کی فراہمی کا عمل تاخیر کا شکار ہے۔اس مراسلے کی diction کو دیکھا جائے تو لاہور ہائی کورٹ کے سینیئر ایڈیشنل رجسٹرار نے وہی زبان استعمال کی ہے جو کہ کسی عدالتی حکم کی تعبیر کے لیئے استعمال کی جاتی ہے۔ ایک تو یہ مراسلہ سرکاری لیٹر ہیڈ پر لکھا گیا، سرکاری حیثیت میں لکھا گیا اور یہ کہ سینیئر ایڈیشنل رجسٹرار لکھتے ہیں کہ یہ پاسز فوری طور پر بلا تاخیر مہیا کیئے جائیں تاکہ لارڈشپس (جج صاحبان)کی خواہش کی من و عن اس کی روح کے مطابق تعمیل و تسکین ہو سکے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ خط پی سی بی کے حکام نے میڈیا میں لیک کیا ورنہ عدالتی راہداریاں اتنی کمزور نہیں کہ ایسے خطوط کا چاند چڑھایا جا سکے۔

چیف جسٹس آف پاکستان کے جب نوٹس میں یہ مراسلہ آیا تو انہوں نے بھی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور ان کی ہدایت پر ہی ملتان بنچ والوں نے یہ مراسلہ واپس لے لیا یعنی لارڈ شپس اپنی خواہش دید میچ سے دستبردار ہو گئے، تاہم مراسلہ بے شک واپس ہو جائے لیکن اس کی ترسیل کے نتیجے میں جو منفی تاثر عدلیہ کے بار ے میں عوامی سطح پر زیر بحث آیا وہ تاثر تو زائل نہیں ہو سکتا۔

پہلے ہی ہماری اعلیٰ عدلیہ کو دنیا بھر کی رینکنگ میں ایک سو چالیس میں سے ایک سو اٹھائیسواں نمبر ملا ہے اور نظام انصاف کے معیار کے نچلے ترین درجے میں ہمارا نمبر آتا ہے، ایسے میں جج صاحبان اور انکی فیملی کی معصومانہ خواہشات کا اظہار خود عدلیہ کا بطور ادارہ وقار مجروح کرنے کے مترادف ہے۔

مسند منصفی پر بیٹھنا ہماری معاشرت میں سب سے ذیادہ مقدس پیشہ گردانا جاتا ہے۔، ایک ایسا پیشہ جو بلحاظ نوعیت حساس بھی ہے اور نازک بھی، واحد منصب ہے جہاں زندگی موت کے فیصلے بھی کیئے جاتے ہیں، اسی لیے اس پیشے اور خدمت سے منسلک عہدیداران کو غیر معمولی مراعات اور تحفظ دیا جاتا ہے، ان مراعات و استحقاق کے باوجود اگر کوئی ایسا پہلو سامنے آئے جس سے منصب اور صاحب منصب تنقید کا شکار بنے تو لا محالہ یہ اس پیشے سے ذیادتی کے مترادف ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریکارڈ پرایسے بہت سے واقعات و مثالیں موجود ہیں جو حقیقت پر مبنی ہیں اور قطعی طور پر عدلیہ جیسے ادارے کے شایان شان نہیں بلکہ سبکی کا سبب بنے ہیں۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کا ضابطہ اخلاق اس حوالے سے بہت واضح ہے۔ ایک بار سپریم کورٹ کے ایک جج صاحب کی بیگم کا کسی وکیل سے جھگڑا ہو گیا تو جج صاحب نے اپنے سٹاف کے ذریعے بیگم کی جانب سے تھانے میں ایف آئی آر درج کروا دی۔ ذرا خود سوچیئے کے ملک کی سب سے بڑی عدالت کا جج اگر اپنے سٹاف کے ذریعے کسی پر پرچہ درج کروائے گا تو ہماری پولیس اور ہمارا تفتیشی نظام کس کی گود میں جا کر ڈھیر ہو گا۔ اعلیٰ عدلیہ کے منصفین کو یہ استحقاق حاصل ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں تمام عمراسی تنخواہ کے برابر پینشن اور مراعات ملتی ہیں جو کہ وہ دوران سروس لیتے ہیں۔ جتنی تنخواہ اتنی پنشن و مراعات کا فارمولہ صرف جج صاحبان کے لیئے بنایا گیا ہے، باقی کسی سرکاری ادارے میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں۔

دوران سروس سرکاری ریٹ پر پلاٹ لینے کی دوڑ میں بھی کچھ جج صاحبان پیچھے نہیں، جہاں گنگا بہہ رہی ہو وہاں ہاتھ دھو لیئے گئے، اور تو اور سپریم کورٹ ملازمین نے ایک کو آپریٹو سوسائٹی بنا لی ہے جو ویسے تو ملازمین کی سوسائٹی ہے لیکن سرپرستی حاضر سروس جج صاحبان کی ہے، اس سوسائٹی کا نام ہی سپریم کورٹ ایمپلائز ہاوسنگ سوسائٹی ہے،با وجود اس کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سرکاری اداروں کے نام پر ہاوئسنگ سوسائٹیزکے نام رکھنے سے روکا ہوا ہے تاکہ سرکاری عہدوں اور سرکاری اثر و رسوخ کا ناجائز استعمال نہ ہو سکے۔ لیکن سپریم کورٹ کے ملازمین کی یہ سوسائٹی گزشتہ بیس سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک واگزار زمین پر ایک وسیع و عریض میدان ہے جہاں بے شمار شہریوں نے پلاٹس لے کر سرمایہ کاری کی ہے لیکن تاحال یہاں ڈیولپمنٹ ندارد ہے۔ ویسے بھی یہ جج صاحبان قسمت کے ایسے دھنی ہیں یا پھر یہ محض حسن اتفاق ہے کہ ایک سرکاری ہاوسنگ فاونڈیشن میں بھی قرعہ اندازی ہوتی ہے تو وہاں کے بہترین صف اول کے کارنر پلاٹ جج صاحبان کے نکل آتے ہیں۔سپریم کورٹ کے جمع کردہ ڈیم فنڈ کی مثال لے لیں، اس وقت کے چیف جسٹس ڈیم فنڈ کو کامیاب بنانے کے لیئے ان فریق سے بھی پیسے قبول کر لیتے تھے جن کا کوئی مقدمہ انکے پاس زیر سماعت ہوتا تھا۔بلکہ فنڈ دینے والوں کے ساتھ چیف جسٹس باقاعدہ تصاویر بھی بنوایا کرتے تھے۔ وہی ڈیم فنڈ جس میں بھر پور شور شرابے کے باوجو ڈیم بنانے کے لیئے مطلوب رقم کا عشر عشیر بھی جمع نہ ہو سکا۔اور اب سپریم کورٹ کی انتظامیہ اس فنڈ کو پبلک اکاونٹس کمیٹی میں لانے سے بھی گریزاں ہے، بالکل اسی طرح جیسے ایک بار ماضی میں ایک چیف جسٹس کی ایماء پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے جو کہ ایک انتظامی عہدیدار ہوتا ہے،نے حساب کتاب کی جانچ پڑتال کے لیے طلب کیے جانے پر پبلک اکاونٹس کمیٹی میں جانے سے صاف انکار کر دیا تھا۔

بات یہ ہے کہ صرف ایک وی وی آئی پی پاسز کا مراسلہ ہی نہیں یہاں در پردہ بے شمار ایسے معاملات ہیں جنکی پردہ داری مقصود ہے،ورنہ انصاف کو آنچ پہنچے گی۔

محمد کامران خان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے.
kamranrwp@gmail.com

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے