کالم

الیکشن کرانے کے ازخود نوٹس کے ممکنہ نتائج و فیصلہ

فروری 26, 2023 3 min

الیکشن کرانے کے ازخود نوٹس کے ممکنہ نتائج و فیصلہ

Reading Time: 3 minutes

الیکشن کرانے کے لیے ازخود نوٹس کیس کے ذریعےعدلیہ اپنے آپ کو ایک بار پھر لائم لائٹ میں لاچکی ہے لیکن اس میں ایسی دھول اٹھے گی کہ کئی چہرے خاکستر نظر آئیں گے۔
آئیے ہم اس بینچ کے ممکنہ فیصلوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
فیصلہ نمبر 1.
اس بینچ کی تشکیل سے بظاہر ایک بات تو یقینی نظر آتی ہے کہ نو میں سے کم از کم پانچ جج ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور تین ججز تو اس سے پہلے ڈیفیکشن کے کیس میں ایک عجیب الخلقت فیصلہ دے کر یہ ثابت بھی کرچکے ہیں کہ وہ آئین سے ماورا بھی ایک سیاسی جماعت کی مدد کریں گے۔

یقینی طور پر الیکشن 90 روز میں نہ کروانے کے حق میں بھی متعدد دلائل دئیے جائیں گے جن میں سے چیدہ چیدہ یہ ہوں گے۔
1۔سب سے زیادہ وزنی اعتراض جو اٹھایا جائے گا وہ یہ ہے کہ مردم شماری جاری ہے اور ایم کیو ایم، پی پی، بلوچوں کو پرانی مردم شماری پر اعتراض ہیں اور اس مردم شماری پر الیکشن آئین کی روح کے خلاف ہوں گے، پرانی مردم شماری پر الیکشن کروانے کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ضروری ہے اور دو صوبوں میں حکومتیں موجود نہیں ہیں۔

2.ملک کی اقتصادی صورتحال بہت نازک ہے، وفاقی حکومت اس سے پہلے ہی چار ہزار ارب خسارے میں ہے اور اس کو 20فیصد کی شرح پر قرض اٹھانا پڑ رہا ہے، سابقہ بجٹ میں الیکشن کے لئے رقم مختص نہیں کی گئی، ملک اس عیاشی کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ ایک سیلف سینٹرڈ نفسیاتی مریض کی خواہش کی تکمیل کے لئے دو بار 60 ساٹھ ارب روپے کا خرچ کرے جبکہ مرکزی اور صوبائی الیکشن میں کل فاصلہ پانچ ماہ کا ہے۔

3.الیکشن کمیشن کو لاہور ہائیکورٹ الیکشن ڈیوٹی کے لیے جوڈیشل آفیسرز دینے سے انکار کر چکا ہے جس کا مطلب ہے کہ یہ عدلیہ کی اپنی کوتاہی بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وفاق اس کو فنڈز اور فوج اس کو سیکیورٹی دینے سے انکاری ہے۔

4.صوبائی اسمبلیاں توڑنے کی وجہ میں واضح بددیانتی شامل ہے، پرویز الہی نے لین دین کرکے ایک ایسے شخص کی خواہش پر اسمبلی توڑی جو اس اسمبلی کا ممبر نہیں تھا، ممکنہ طور پر وہ اراکین پنجاب اسمبلی بھی فریق بنیں گے جنہیں پرویز الہیٰ نے حلف دیا تھا کہ مجھے اعتماد کا ووٹ دیں میں اسمبلی نہیں توڑوں گا، پرویز الہی کو اعتماد کا ووٹ اس لیے نہیں دیا تھا کہ اسمبلی توڑ دی جائے۔

5.اس بینچ کی تشکیل پر بھی اعتراضات اٹھیں گے جس کا ٹریلر اپ دیکھ چکے ہیں۔

اب اس کیس کے ممکنہ فیصلوں پر بات کرتے ہیں۔
امکان نمبر ایک یہ ہے چیف جسٹس تمام اعتراضات کو بلڈوز کرتے ہوئے اپنے ہم خیال گروپ سے یہ فیصلہ لینے میں کامیاب ہوجائیں کہ دو صوبائی اسمبلیوں کو الیکشن میں دھکیل دیں، اور ماتحت عدلیہ کو حکم دیں کہ وہ جوڈیشل آفیسرز دے، فوج کو حکم دیں وہ سیکیورٹی دے، گورنر کو حکم دیں کہ وہ تاریخ دے، الیکشن کمیشن کو الیکشن منعقد کرنے کا حکم دیں اور وفاقی حکومت کو فنڈز جاری کرنے کا حکم دیں۔

اس ممکنہ فیصلے کے بعد الیکشن مہم شروع ہوجائے اور مونہہ کی توپوں سے مغلظات کی برسات شروع ہوجائے۔

ان ممکنہ الیکشنز کا نتیجہ وہ نکلے جو عمران خان اور عدلیہ کا ایک مخصوص گروپ چاہتا ہے (اگرچہ اس کے امکانات 52 فیصد سے زیادہ نہیں اور ہم ایک اور معلق حکومت یا ہنگ پارلیمنٹ کی طرف ہی جائیں گے)

اس صورت میں بھی عمران خان بظاہر کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ تب تک وفاقی حکومت اگلے سال کا بجٹ بھی پیش کر چکی ہوگی اور اس کے پاس فقط چار پانچ ماہ ہوں گے، رہی دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت تو وہ اسمبلیاں توڑنے سے پہلے بھی پی ٹی آئی کے پاس ہی تھی لہذا گلاس توڑنے کے آٹھ آنے کےعلاوہ کوئی آؤٹ کم برآمد نہیں ہوگا بلکہ اس بات کے بہت امکانات ہیں کہ عمران خان جیتنے کے باوجود ان الیکشنز کے نتائج ماننے کو تیار نہیں ہوں گے بلکہ وہ کشیدگی کو مستقل بڑھانے کے عمل کو مہمیز ہی کرتے رہیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت توڑنے کا کوئی بھی حکم عدالت دے نہیں سکتی اور اصل وجہ نزاع مرکزی حکومت ہی ہے جہاں سے عمران خان ذلت آمیز طریقے سے بے دخل ہوئے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے