آئین پاکستان کا عسکری محافظ
Reading Time: 3 minutesسجاد ضیغم ایڈووکیٹ
کرنل ر انعام الرحیم خواجہ ایڈووکیٹ کا نام اور کام پاکستان میں آئین کی با لادستی، قانون کی حکمرانی کی جدوجہد میں معتبر حوالہ ہے.
اپنی اصول پسندی، دیانتداری اور نقد جاں بر سر مقتل لے کر آنے کی جرات و بہادری سے انہوں نے ہر مشکل گھڑی میں آئین کا پھریرا بلند کیا، خواہ اس "جرم” کی پاداش میں انہیں تشدد و اغوا سمیت مختلف Despotic ہتھکنڈوں کا نشانہ بننا پڑا.
وہ آرمڈ فورسز کے Prestigious ادارے کاکول اکیڈمی میں دس سال تک انسٹرکٹر، سینئر انسٹرکٹر اور ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے بعد میں ان کا تبادلہ آرمی کے لیگل شعبہ یعنی JAG Department میں کردیا گیا،وہاں پر انہوں نے 16 سال تک مختلف حیثیتوں سے بحسن و خوبی ذمہ داری ادا کی.
ان کی ادارے میں Supremacy of Constitution and Rule of law سے مضبوط کمٹمنٹ ملک کے خوںخوار ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو آنکھوں میں کھٹکتی تھی، اس لیے انہیں پانچ سال پہلے ریٹائر کر دیا گیا.
وہ پرویز مشرف کی آئین شکنی اور امریکہ کی بے ننگ و نام وار آن ٹیرر میں ملک کی فضائی، زمینی اور بحری حدود امریکہ کے حوالے کر کے ملک کی آزادی و خودمختاری کو منڈی کا مال اور بازار کی جنس بنانے کی آبروباختہ پا لیسی کے سخت مخالف تھے.
انہوں نے حالات کی کٹھنائیوں اور راستے کی دشواریوں سے کبھی حوصلہ نہیں ہارا. وہ قانون کے شعبے کو اوڑھنا بچھونا بنا کر ہمیشہ طالع آزماؤں اور طا قتوروں کے غیر قانونی اقدامات کو چیلنج کر تے رہے، خواہ اسکی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑی.
جب جنرل ر اشفاق پرویز کیانی کو غیر قانونی ایکسٹنشن دی گئی تو اس اقدام کو کرنل صاحب نے چیلنج کیا. اس” جرم "کی پاداش میں ان پر physically assault کر کے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انکی گاڑی پر بھی توڑ پھوڑ کی گئی.. مگر نہ ان کے اوسان خطا ہوئے اور نہ ان کے پائے استقلال میں لغزش آئی. ملکی اور بین الاقوامی میڈیا نے اس واقعے کو کوریج دی.
یہ انسانی حقوق اور آئین کی با لادستی پر مکمل یقین رکھتے ہیں. اس لیے یہ غیر قانونی طور پر اغوا ہونے والے "مسنگ پرسنز” کے وکیل رہے. ان کی کوشش و کاوش اور قانونی جنگ سے سینکڑوں گمشدہ افراد بازیاب ہوئے.
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو کا سراپا بنا، یہ چست بدن شخص قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھتا ہے.
یہ ہر دور میں اپنی بساط اور وسائل سے بڑھ کر آئین کی سر بلندی اور قانون کی حکمرانی کیلئے جدوجہد کرتے رہے.
جب جنرل ر راحیل شریف نے امریکہ کے ایماء پر پاکستان کے بارڈر پر واقع کئی کلو میٹر پر محیط، ہزاروں پاکستانی شہریوں کے مسکن ” انگو ر اڈہ” کو مقامی شہریوں کے احتجاج کو بالائے طاق رکھ کر ،اور ملکی آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے افغانستان کے حوالے کیا، تو کرنل انعام الرحیم خواجہ نے اس کے اس اقدام کو لاہور ہائی کورٹ، راولپنڈی بنچ میں چیلنج کیا اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 245 کا حوالہ دے کر اس کے آئینی اختیار یعنی Only duty to defend the motherland, neither he could enter into any dialogue with any other country in such matter کا آئینہ دکھاتے ہوئے، اسے اس اقدام پر سنگین غداری کا مرتکب قرار دینے کی استدعا کی کہ پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعہ 24 کے مطابق ایسے سنگین جرم میں مبتلا شخص کی سزا، کورٹ مارشل کے بعد سزائے موت ہے.
جب جنرل ر باجوہ کو مین سٹریم سیاسی جماعتوں بالخصوص اس دور کی حکمراں جماعت کی عاقبت نا اندیشی سے توسیع دی گئی تو اس غیر قانونی اقدام کو چیلنج کرنے والے گروہ قلیل کے وہ سرخیل تھے.انہوں نے سپریم کورٹ میں COAS کی ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون پیش کر کے سرکار کے وکیلوں کو ساکت و صامت کردیا، اس جرم کی پاداش میں انہیں اغوا کر کے مسنگ پرسنز میں شامل کر لیا گیا.
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد، راولپنڈی و اسلام آباد بار اور میڈیا کی بھرپور کوریج کے بعد ان کے بیٹے کی پٹیشن پر انہیں اس Solitary Confinement اور حبس بے جا سے رہائی ملی.
انہوں نے سپریم کورٹ کے نڈر جج، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف جھوٹے ریفرنس کو ناکام بنانے میں جس طرح مہارت سے انتہائی اہم کردار ادا کیا، وہ ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے. اس طرح انکی پوری زندگی آئین و قانون کی بالادستی کی تابناک جدوجہد سے عبارت ہے. یہ موضوع ایک آرٹیکل کا نہیں بلکہ ایک پوری مبسوط کتاب کا متقاضی ہے تا کہ ملک کے باشعور عوام آئین کی پامالی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں حریت فکر، آئین، قانون، انسانی حقوق اور اسلامی اقدار کی ٹمٹماتی شمعیں فروزاں کرنے والے اس مرد غیور کے کارناموں سے روشناس ہو سکیں .
طولانی سے گریز کرتے ہوئے بغیر کسی الفاظ کی بازیگری اور مبالغہ آرائی کے اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ وہ ہماری داغ داغ آئینی تاریخ کا روشن باب اور Living لیجنڈ ہیں. اللہ کرے وہ یونہی حق وصداقت کے پر چم کو تادم آخر بلند رکھیں! آمین یارب العالمین!
ان کی زندگی بھر کی آئینی و قانونی جدوجہد اس شعر کے مصداق ہے :
جب پر چم جاں لے کر نکلے ہم خاک نشیں مقتل، مقتل اس روز سے لے کر آج تلک جلاد پہ ہیبت طاری ہے