چیف جسٹس سے کہتا ہوں کہ آڈیو کا فرنزک کروایا جائے: وزیراعظم
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ ملک میں غیر منصفانہ نظام نہیں چلے گا۔ سیاستدانوں کے خلاف فوری کیسز بن جاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ آج تک کتنے اعلیٰ ججوں کو کرپشن کے باعث نکالا گیا۔
منگل کو خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ ‘حقائق اور سچائی کو سامنے لایا جانا ضروری ہے۔’
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’سیاستدان جیلوں میں جاتے ہیں، کتنے اعلیٰ جج کرپشن پر نکالے گئے؟ میں جاننا چاہتا ہوں۔ اور سیاستدانوں کے خلاف آنکھیں بند کر کے کیسز بن جاتے ہیں۔ یہ غیر عادلانہ اور غیر منصفانہ نظام نہیں چلے گا۔‘
شہباز شریف نے کہا کہ ’میں آئین کا مقدمہ لے کر پیش ہوا ہوں۔ آئین کا سنگین مذاق بنایا جا رہا ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’پارلیمان کو ملک میں جاری معاملات کا فی الفور نوٹس لینا ہوگا۔ ‘
’ارکان پارلیمان کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا ہم گائے بھینس کی طرح ہانکیں جائیں گے یا آئین پر عمل در آمد کریں گے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہمیں اس پر فیصلہ کرنا ہوگا۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’جس طرح ہم ہر فیصلے میں کابینہ سے مشاورت کرتے ہیں تو باقی تمام اداروں کو بھی اپنی کابینہ کے مشورے سے مل بیٹھ کر فیصلہ کرنے چاہییں۔ ‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’حال ہی میں آڈیو لیک سامنے آئی جس میں سپریم کورٹ کے ججز کے بارے میں باتیں کی گئیں۔ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے کہتا ہوں کہ آڈیو کا فرنزک کروایا جائے۔ اگر جھوٹی ہے تو مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے اگر سچ ہے تو سچ سامنے آنا چاہیے۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اب عدل نظر آئے گا تو تمام خطروں کے بادل ختم ہو جائیں گے۔‘
‘ترازو کا توزان ہی جنگل کے قانون کو بدلے گا، ججوں کے نام گلی محلے کے بچوں کی زبان پر ہیں۔ اسے بدلنے کے لیے انصاف کا بول بالا کرنا ہوگا۔ ‘’اگر ہم نے قانون سازی نہیں کی تو ملک اور آنے والی نسلیں معاف نہیں کریں گے۔‘
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ ’ایک شخص (عمران خان) کے لیے رات کے گیارہ بجے عدالت کھلتی ہے، ضمانت ہوتی ہے، صبح دوپہرعدالت کھلتی ہے اور انھیں ضمانت مل جاتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ترازو کا جھکاؤ ایک طرف چلا گیا ہے، یہ عدم توازن نہیں رہ سکتا۔ اس کی تصحیح فوری طور پر ہونی چاہیے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ جب تک عمران خان قوم سے معافی نہیں مانگے گا تب تک اس سے بات نہیں ہو سکتی۔
’جب تک کہ وہ قوم کے سامنے یہ تسلیم نہ کرے کہ میرے ماضی کی وجہ سے قوم کو، آئین، جمہور عدلیہ کو زک پہنچی ہے اور اس پر معافی مانگتا ہوں تو پھر ہم سب بیٹھ کر مشورہ کرلیں گے، کیوں کہ ہمارے پاس توپیں، چھڑیاں نہیں صرف شائستہ زبان، آئین اور قانون ہے۔