کالم

چیف جسٹس اور سپریم کورٹ میں فرق

اپریل 9, 2023 11 min

چیف جسٹس اور سپریم کورٹ میں فرق

Reading Time: 11 minutes

کچھ وکیل ہوتے ہیں جو فیس لے کر کمرہ عدالت کی حدود میں اپنے موکل کی وکالت کرتے ہیں۔ کمرہ عدالت سے باہر نکل کر وہ کسی بھی سیاسی جماعت کی ٹی وی کیمروں کے سامنے ترجمانی سے انکاری ہوتے ہیں۔ اس کا فائدہ بھی ہوتا ہے، کل تک نواز شریف اور مریم نواز کی طرف سے پانامہ کیسوں میں پیش ہونے والے ایڈوکیٹ خواجہ حارث اور سلمان اکرم راجہ آج عمران خان کی طرف سے بھی بلا ججھک پیش ہوتے ہیں۔
وکیلوں کا عدالت سے باہر میڈیا پر سیاسی جماعتوں کی ترجمانی کرنا اس لیے مناسب نہیں کہ انھوں نے لاکھوں روپوں کی فیس مقدمہ لڑنے واسطے لی ہوتی ہے نہ کہ عدالت سے باہر سیاسی جماعت یا کسی سیاستدان کی ترجمانی کرنے کے لیے۔
اگر وکیل ترجمانی کرتے ہیں تو سیاسی مخالفین بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ یہ وکیل صاحب سیاسی جماعت کے تنخواہ دار ملازم ہیں، مگر کچھ وکیل سیاسی جماعت کہ باقاعدہ کارکن اور لیڈر بھی ہوتے ہیں جن کے لیے وکالت اور ترجمانی ساتھ ساتھ چلتی ہے، مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو سیاسی ایجنڈے کو بڑھانے کے لیے وکالت کا سہارا لیتے ہیں، اخباروں میں ایسے سیاسی موضوعات پر اپنے تجزیے چھاپتے ہیں کہ جن سے جڑے عدالتی مقدمات میں وہ کسی ایک فریق کی طرف سے فیس لے کر پیش ہو رہے ہوتے ہیں.

سیاسی جماعت سے وابستہ ایک ایسے ہی وکیل نے حال ہی میں الیکشن کی تاریخ متعلق ایک تجزیہ لکھا اور اپنی سیاسی وابستگی کو چھپایا، ایک قومی انگریزی روزنامے نے ان کا تجزیہ چھاپا اور مصنف کا تعارف بطور ایک غیر جانبدار قانون لکھا.
ایک دوسری قسم ان وکیلوں کی بھی ہے جو مخصوص نظریاتی جھکاؤ کی وجہ سے اپنی تعلیم یا تحقیق سے زیادہ اپنے قانون دان اباواجداد کا تاریخ میں مخصوص کردار کو دہرانے پر مجبور ہوتے ہیں، جن کے باپ صاحبان موقع پرست اور فوجی آمروں کے ساتھ یا ان کی کابینہ میں رہے اُن وکیلوں یا ججوں کی سرشت میں آج بھی موقع پرستی شامل ہے، ان کے علاوہ کچھ ایسے نوجوان وکیل ہیں جنھوں نے ایسے باپوں کے پیسے سے لندن سے بیرسٹری تو کر لی مگر ان کی آئین اور جمہوریت سے متعلق سوجھ بوجھ اور سوچ پر ان کا متعصب ڈی این اے حاوی ہو جاتا ہے۔

ان میں سے کچھ نوجوان وکلا خاص طور پر عمران خان کے شاہی بگھی کے منتظر ہیں کہ جب انہیں دربارِ عالیہ میں تاحیات شاہی خلعت سے نوازا جائے گا اور یوں ان کی آیندہ نسلوں میں بھی گلشن کا کاروبار چلتا رہے گا.

ایسے ہی کچھ وکلا اور دانشوروں نے سپریم کورٹ کے سوو موٹو اختیارات کا دفاع کرنے کا ٹھیکہ اٹھا لیا ہے،حکومت نے ان اختیارات متعلق ایک قانون پارلیمنٹ کے دو ایوانوں سے منظور کروا کر صدر مملکت کو بھیجا ہے، جسکے تحت آئین میں پہلے سے درج سپریم کورٹ کے سوو موٹو اختیارات میں ترمیم نہیں بلکہ اسکی وضاحت کی گئی ہے، کچھ مذکورہ نسل کے قانون دان جان بوجھ کر اس مجوزہ قانون سازی کو سپریم کورٹ کے اختیارات میں ترمیم اور کمی کے مترادف قرار دے رہے ہیں، حقیقت کیا ہے آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔

گذشتہ ستائیس سال سے سپریم کورٹ میں رپورٹنگ کرنے کے دوران راقم الحروف نے انیس سو ستانوے کا وہ خوفناک سقوطِ عدالت عُظمی بھی دیکھا جس میں دو چیف جسٹس اور دو سپریم کورٹ بن گئی تھیں۔ عدالت کے نوٹس بورڈ پر دو چیف جسٹس صاحبان کی طرف سے جاری کردہ دو “کاز لسٹیں” (اس دن مقدمات کی فہرست) دیکھ کر صرف تین سال کی صحافت کے ساتھ مجھ جیسے نوجوان صحافی کی آنکھیں بھی بھر آئی تھی، وہ آئینی بحران بھی بنچ بنانے کے اختیار کا آئین کے برخلاف چیف جسٹس کیطرف سے استعمال کئیے جانے کے باعث انتہا کو پہنچ گیا تھا، چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے اپنا بنچ بنا لیا اور انکے ساتھی ججوں نے جسٹس سعید الزماں صدیقی کو اپنا چیف جسٹس چن کر سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تقرری غیر آئینی قرار دے دی۔ اگر اس وقت بھی آئین کو پڑھ لیا جاتا تو معلوم ہوتا کہ آئین کی شق ایک سو چوراسی تین کے سوو موٹو اختیارات کے استعمال کے لئیے آئین نے “چیف جسٹس” کے نہیں بلکہ “سپریم کورٹ” کے الفاظ استعمال کئیے ہیں، اور اس کی خلاف ورزی نہ صرف یہ کہ سجاد علی شاہ کے دور سے جاری تھی بلکہ حال ہی میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں نے آئین میں “سپریم کورٹ” کو دئیے گئے اس اختیار کو بھی “ون مین شو” یعنی فردِ واحد چیف جسٹس کی مرضی اور منشا سے مشروط کر دیا، آئین کی شق ایک سو چوراسی تین کو ایک چیف جسٹس کی باندی بنا دیا گیا۔ اس پانچ رکنی بنچ نے بھی بغیر تفصیلی بحث و تحقیق کے صرف جسٹس فائز عیسی سے ایک کیس چھینے کے لئیے ہنگامی بنیادوں پر یہ سب کچھ کیا تھا، پوری سپریم کورٹ کو فرد واحد چیف جسٹس کے کنٹرول میں دینے کے خلاف اب تک تقریباً چھ معزز ججز مختلف فیصلوں کے ذریعے آواز بلند کر چکے تھے۔ اختیارات کے اس ناجائز اور غیر آئینی استعمال کو روکنے واسطے پارلیمنٹ نے ایک قانون پاس کیا ہے جسکے تحت فردِ واحد چیف جسٹس نہیں بلکہ تین سینئیر ترین ججز کی کمیٹی اکثریت سے یہ فیصلہ کریگی کہ کونسا معاملہ سوُموٹو نوٹس کے قابل ہے اور کونسا نہیں اور اگر نوٹس لینا ہے تو کتنے اور کونسے جج اس معاملے پر سماعت کرینگے، اب کوئی بتائے کہ ایسا کرنے سے سپریم کورٹ کو آئین میں پہلے سے موجود اس کے اختیارات دیے گئے ہیں یا چھینے گئے ہیں؟

صدر عارف علوی نے حسبِ توقع ایک یوتھیا بن کر قانون کے اس بل پر اعتراض لگا کر اسے واپس بھیج دیا ہے، آئین کے تحت اگر پیر کو مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں اسے من و عن منظور کر کے دوبارہ صدر عارف علوی کو بھیج دیا جاتا ہے تو 10 دن بعد یعنی بیس اپریل تک یہ بل قانون بن جائے گا اور 21 اپریل کو سپریم کورٹ میں تین سینئیر ترین ججوں کی کمیٹی سووموٹو کیسز اور اپیلوں کی سماعت کے لیے بنچوں کی تشکیل شروع کر دے گی۔

اس بات کا بھی امکان ہے کہ اس نئے قانون کو سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ میں چیلنج کر کے اس پر عمل درآمد روک دیا جائے، مگر سپریم کورٹ میں سوموٹو درخواست کے ذریعے اس قانون کو چیلنج کیا گیا تو پھر اس کے لیے بھی بنچ کی تشکیل تین ججوں کی کمیٹی ہی کرے گی. اسی وجہ سے زیادہ امکان ہے کہ اسے 21 اپریل یا اگلے روز ہی ہائی کورٹ میں (ممکنہ طور پر لاہور ہائی کورٹ میں) چیلنج کیا جا سکتا ہے جہاں سے اس قانون پر عمل درآمد روک دیا گیا تو حکومت کا نئے قانون کے تحت اپیل (۱۴ مئی کے الیکشن کے خلاف) دائر کر کے مختلف ججوں کے سامنے اس کی سماعت کی امید پر پانی پھر جائے گا اور پھر اگلے دس دن میں پرانے قانون کے تحت محض نظر ثانی کا وقت بھی گزر سکتا ہے۔

اب دیکھیں ۲۰ اپریل کو کیا ہوتا ہے، کیونکہ قانون نافذ العمل ہونے سے پہلے چیلنج بھی نہیں ہو سکتا۔

اس نئے قانون پر کچھ عمران دار ماہرینِ قانون لوگوں کو گمراہ بھی کر رہے ہیں یہ دلیل دے کر کہ اس قانون کے ذریعے سپریم کورٹ کے آئینی اختیارات میں کمی لائی جا رہی ہے جو ممکن نہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے ذریعے پہلی بار سپریم کورٹ کے اختیارات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔

اختیارات تو غیر آئینی طور پر ایک فردِ واحد چیف جسٹس نے چھین رکھے تھے جو اس حوالے سے کوئی قواعد بھی بنانے کو تیار نہ تھا تاکہ پہلے اسٹیبلشمنٹ اور پھر اپنی مرضی سے منتخب حکومتوں کو بلیک میل کرتا رہے یا انہیں گراتا اور بناتا رہے۔

اندازہ کریں کہ فردِ واحد کا بنچ بنانے کا اختیار ایسا تھا کہ جیسے کوئی آٹو میکینک یہ کہہ کر گاڑی کی ملکیت کا دعوی کر دے کہ یہ خراب ہو گئی ہے۔ آمریت کے طفیلی قانون دانوں کی نسلوں نے اپنے چند تجزیوں میں بھی انتہائی ڈھٹائی سے آئین کے شیڈول چار کے نقطے 55 کا حوالہ دیا ہے کہ اس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ تمام عدالتوں “ماسوائے سپریم کورٹ” کے دائرہ کار اور اختیارات متعلق قانون سازی کر سکتی ہے، تو جناب پہلی بات یہ ہے کہ “ماسوائے سپریم کورٹ” سے مراد “ماسوائے چیف جسٹس” نہیں لی جا سکتی جبکہ سوُموٹو کا اختیار غیر آئینی طور پر “چیف جسٹس” استعمال کر رہے تھے “سپریم کورٹ” نہیں. اور اسی لیے سپریم کورٹ کے اکثر ججوں نے تحریری طور پر اس پر اعتراض بھی کیا تھا، اب جو قانون سازی کی گئی ہے اس میں سپریم کورٹ کے اختیارات کو گھٹایا نہیں بلکہ غیر آئینی طور پر استعمال ہونے والے اس ہتھیار کو چیف جسٹس سے لے کر اس کی جائز وارث یعنی سپریم کورٹ کو لوٹایا گیا ہے.

اس لیے یہ کہنا درست نہیں کہ شیڈول چار کی خلاف ورزی ہوئی ہے بلکہ حقیقت میں نئے قانون کے ذریعے شیڈول چار پر سختی سے عملدرآمد کرایا جا رہا ہے کہ جس کے تحت چیف جسٹس کو بھی سپریم کورٹ کا اختیار کم کر کے اپنا اختیار بڑھانے کی اجازت نہیں- آئین میں چیف جسٹس کو اپنے انتظامی اختیار کے تحت عدالتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت نہیں، جسٹس فائز عیسی کے تین رکنی بنچ کا سووموٹو بینچوں کی تشکیل متعلق چیف جسٹس کے اختیارات کیخلاف فیصلے کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال چیمبر میں بیٹھ کر سرکولر کے ذریعے ختم نہیں کر سکتے تھے، جس طرح دستر خوان پر ہونے والے کام بیت الخلا میں نہیں ہو سکتے اسی طرح کھلی عدالت میں سپریم کورٹ کے تین ججوں کے فیصلے کو کسی چیمبر میں بیٹھا اکیلا چیف جسٹس ختم نہیں کر سکتا۔

اب چلتے ہیں اُن چند نسل در نسل مفاد پرست قانون دانوں کی دوسری دلیل کی طرف جس میں کہا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کو نوے دن میں انتخابات کروانے سے روکا جا رہا ہے، تو جناب اگر آج بھی چیف جسٹس عمر عطا بندیال نئے قانون کی صدر علوی سے منظوری سے پہلے غیر آئینی طور پر ہی سہی خود ہی فل کورٹ (تمام ججوں پر مشتمل مائنس وہ جو پہلے دستبردار ہو چکے) بنا دیں تو جو فیصلہ ہو گا اس سے بھاگنے کا کسی کو موقعہ نہیں ملے گا، مگر چیف جسٹس بندیال ایسا نہیں کر پار رہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فل کورٹ نے آ کر پہلے تو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پہلے سات ججوں کے بنچ کی طرف سے چار تین کی اکثریت کا فیصلہ درست تھا یعنی تمام درخواستیں مسترد، سووموٹو کاروائی اور نووے دن میں الیکشن کروانے کا حکم بھی غیر آئینی۔ اب نوے دن میں الیکشن کرانے کی آئینی ذمے داری سے کس کو انکار ہے.
مگر بات یہ ہے کہ جب معاملہ سپریم کورٹ میں آ چکا تھا تو کیا اسے آئین کے مطابق نہیں سنا جانا چاہئیے؟ آئین میں بکرے کی قربانی جائز تو مگر کیا اسے گولی مار کر قربان کیا جا سکتا ہے؟ 90 دن میں الیکشن کروانے یا نہ کروانے کے متعلق بات یا بحث تب شروع ہو گی جب آئین کے مطابق سپریم کورٹ (چیف جسٹس نہیں) سووموٹو نوٹس لے گی اور بنچ تشکیل دیا جائے گا، اور اگر سپریم کورٹ چار تین کی اکثریت سے یہ قرار دے چکی ہے کہ معاملہ ہائی کورٹ میں طے ہو تو انتظار کر لینے میں کیا حرج تھا، قصائی عید کے تیسرے دن دستیاب ہو تو پہلے دن بکرے کو گولی مار کر مردار کرنے کی کیا ضرورت ہے-

جسٹس اطہر من اللہ کے تفصیلی فیصلے نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی بطور چیف جسٹس ان کی اخلاقی قیادت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے، جسٹس اطہر من اللہ نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ سات ججوں کے بنچ نے چار تین کی اکثریت سے نوّوے دن میں الیکشن کرانی متعلو پی ٹی آئی کی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا، چیف جسٹس اور انکے چند ساتھی عمران دار ججوں اور وکیلوں کی رائے میں ان چار ججوں نے کیس سنا ہی نہیں تو فیصلہ کیسے لکھ دیا، تو جناب ابتدائی سماعت نو ججوں نے کی تھی، دو ججوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اس سووموٹو کے محرکین ہونے کے باعث بنچ سے الگ ہو گئے تھے اور انہوں نے بنچ اور درخواستوں پر کوئی بھی رائے دینے سے اجتناب کیا تھا، جسکے بعد چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کمال چالاکی یہ تاثر دیا کہ دو جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس نقوی کو نکال کر باقی سات ججوں پر مشتمل بنچ بنا دیا جائے گا اور نو ججوں سے بنچ کی تشکیلِ نو کے آرڈر پر نو ججوں کے دستخط لئیے گئے، اور پھر اپنے ہم خیال ججوں کی عددی اکثریت برقرار رکھنے کے لئیے سات کی بجائے پانچ ججوں کا بنچ بنایا جس میں اپنی تین دو کی عددی اکثریت بنا دی گئی، (تین ججوں میں خود چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس منیب اختر ) اور پھر اس بنچ پر موجود دوسری رائے والے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس تمام کاروائی کو سات رکنی بنچ کا تسلسل سمجھ کر اپنے پرانے ۴-۳ کے اکثریتی حکم (درخواستیں مسترد بوجہ ناقابلِ سماعت ) کا تفصیلی فیصلہ بھی جاری کر دیا، اب جب کے درخواستیں چار تین کی اکثریت سے ناقابل سماعت قرار دی جا چکی تو چیف جسٹس کی طرف سے دو ججوں کو نکال کر باقی انہیں پانچ ججوں کا بنچ بنا دینا اور یہ دلیل دینا کہ نکالے گئے ججوں نے تو کیس سنا ہی نہیں اسے عمران داری یا بددیانتی نہیں تو اور کیا کہیں گے؟ او بھائی جب نو میں سے دو ججوں نے رائے دینے سے انکار کیا اور باقی سات میں سے چار نے درخواستیں ناقابلِ سماعت قرار دے دیں تو پھر دوبارہ پانچ رکنی بنچ کیوں بنایا گیا اور نو رکنی بنچ کے فیصلے میں بنچ کی تشکیل نو کرنے کی اجازت صرف دو ججوں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس نقوی کی رضا کارانہ دستبرداری کی حد تک تھی اور جب دو کی بجائے چار ججوں کو بنچ سے نکالا گیا تو نکالے گئے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی کی طرف سے نو رکنی بنچ کی تشکیل کے حکم کے پسِ منظر کو بھی تفصیلی فیصلے میں واضح کیا گیا، ایک چیف جسٹس کی چالاکی اور عیاری نے ساتھی ججوں کو بھی جوابی کاروائی پر مجبور کر دیا، چار ججوں کی تفصیلی فیصلے ایک چیف جسٹس پر ایسی بد اعتمادی کا ہی نتیجہ تھے وگرنہ عام حالات میں ججز کبھی بھی اس حد تک نہیں جاتے کہ تفصیلی فیصلے میں اپنے چیف جسٹس کی بدنیتی اور اسکے کردار پر یوں رائے زنی کریں۔ بظاہر عمران خان کی محبت نے بڑے بڑے آئینی عہدیداروں کو ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا ہے۔ مکاری اور عیاری کا جو بیج بویا جا چکا ہے اس کے نتیجے میں جسٹس فائز عیسی اور چند دیگر با اصول ججز حضرات میں اضطرابی کیفیت میں ہیں.

جسٹس فائز عیسی کے ایک تین رکنی بنچ نے جب ایک عام سے دوسرے سووموٹو کیس میں سپریم کورٹ کو عارضی طور پر تمام سووموٹو کاروائیاں روکنے کا حکم جاری کیا تو چیف جسٹس نے پھر کمال چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ کیس جسٹس فائز عیسی کے بنچ سے لیکر ایک چھ رکنی بنچ کے سامنے لگا دیا اور اسکی ہنگامی سماعت اسی دن دو بجے رکھ دی، جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں چھ رکنی بنچ نے مختصر سماعت کے بعد وہ کیس ہی نمٹا دیا کیونکہ درخواست گذار نے بتایا کہ یہ بہت پرانی درخواست تھی جو اب اسکی لئیے غیر اہم ہو گئی ہے، چھ رکنی ننچ نے کیس نمٹا یا تو اِسی کیس میں جسٹس فائز عیسی کا سووموٹو کاروائیوں کے خلاف عبوری حکم بھی ختم ہو گیا، اگر جسٹس فائز عیسی کا بنچ عبوری حکم کی بجائے وہی ھدایات اپنے حتمی حکم میں دے کر کیس نمٹا دیتا تو چیف جسٹس کے پاس اس کیس میں درخواست گذار کے ذریعے نظر ثانی اپیل کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا مگر اب عبوری حکم کے بعد جسٹس فائز عیسی اور انکے ساتھی ججز حضرات مزید سماعت کر نہیں سکتے تھے اور چیف جسٹس کی سووموٹو کاروائیوں کے تالے میں قاضی عیسی کے عبوری حکم کی ایلفی ڈل چکی تھی اس لئیے چیف جسٹس بندیال نے وہ تالہ ہی توڑ دیا (آئین، قانون اور ضابطے) اور اُسی کیس کو جسٹس عیسی کے بنچ سے لیکر جسٹس اعجاز الاحسن کی چھ رکنی بنچ کو دے دیا جس نے انصاف (تحریکِ انصاف) کے ہتھوڑے کے ایک ہلکے سے وار سے تالہ توڑ دیا، اسکے بعد جسٹس فائز عیسی کا ردّ عمل حالیہ نوٹ کی صورت میں آیا جس میں چھ رکنی بنچ پر بجا طور ہر سوال آٹھائے گئے ہیں مگر یہ نوٹ نما ردّعمل نہ تو پریس ریلیز تھی اور نہ ہی کسی عدالتی کاروائی کا تفصیلی فیصلہ، ابتدا میں اسے عدالتی فیصلہ سمجھ کر کے سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی آپ لوڈ کر دیا گیا مگر پھر اسکی غیر واضح قانونی حیثیت کے باعث اسے ویب سائٹ سے بجا طور پر ہٹا دیا گیا۔ کیا کوئی جج کسی ایسے کیس میں جو اس نے خود التوا میں ڈال رکھا ہو اچانک گھر بیٹھے کوئی نوٹ لکھ کر جاری کر سکتا ہے؟ اور خاص کر جب چیف جسٹس کی قیادت میں ججوں کا مخالف گروپ چھ رکنی بنچ کے ذریعے وہ کیس ہی نمٹا چکا ہو؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کیطرف سے ایک ساتھی جج جسٹس اقبال حمید الرحمان کے استعفی کے واقعات بیان کرتے ہوئے کھلی عدالت میں بہائے گئے آنسوؤں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس کیس میں جذباتی طور پر ملوث ہو چکے تھے، ایسے جذبات کا اظہار تو عدالت میں لاپتہ افراد کی ماؤں بہنوں کیطرف سے کیا جاتا رہا ہے جنکو چیف جسٹس کی سیٹ پر بیٹھے “منصف” یہ کہہ کر نظر انداز کرتے تھے کہ “بی بی ہم آنسوؤں کو نہیں آئین اور قانون کو دیکھتے ہیں” اور پھر ناجائز اثاثہ جات اور آڈیو لیکس کے الزامات کا شکار ساتھی جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو اپنے ساتھ دوسرے بینچوں میں بیٹھانے کی وجہ بھی انتہائی شرمناک نکلی کہ میں پیغام دینا چاہتا تھا دنیا کو کہ یہ سب الزام جھوٹے ہیں۔ سبحان اللہ! جج فیصلے نہیں پیغام دینا شروع ہو گئے ہیں۔ تاثر ہے کہ پانامہ بنچ کو “پیغام” آتے تھے، اب یہاں سے وہاں پیغام جاتے ہیں؟

معزز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے جس طرح جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی متعکق لیک شدہ آڈیوز کو جج کی کرسی پر بیٹھ کر بغیر کسی سماعت، شواہد یا دلائل کے جعلی قرار دیا ہے، اسکے بعد ۱۴ مئی کو الیکشن کرانے والے حکم پر کسی کو حیران نہیں ہونا چاہئیے-

موجودہ حالات میں چیف جسٹس کو یا تو دو سینئیر ترین ججوں کے ساتھ از خود مشورہ کر کے فل کورٹ بنا دینا چاہیے یا پھر فیصلہ دینے کی بجائے استعفی دے کر گھر جانا چاہیے۔ موجودہ عدالتی قیادت کو اپنی عدت کی مدت میں ایسے کوئی جذباتی فیصلے نہیں کرنے چاہئیں کہ جن پر کئی نسلوں تک سوال اٹھتے رہیں .

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے