آئین سے وفاداری کا آسان ٹیسٹ
Reading Time: 5 minutesعوام نے آج تک صدورِ مملکت، وزرائےاعظموں، وفاقی وزرأ اور فوج میں کمیشن پانے والوں کو آئین کی حفاظت اور اس کے دفاع کا حلف اُٹھاتے دیکھا ہے، کسی نے بھی اپنے حلف کی پاسداری نہیں کی، آئینِ پاکستان میں تین آئینی ستونوں – بالا دست پارلیمنٹ، انتظامیہ (یعنی حکومت) اور آزاد عدلیہ کے بیچ اختیارات کی واضح تقسیم درج ہے، پریس کو ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے جس کی مضبوطی آزادی رائے اور معلومات تک رسائی کے بنیادی حق سے ہوتی ہے.
اٹھائے گئے اپنے ان حلف کے باوجود اقتدار اور اختیارات کی بھوک نے ریاست کے تین ستونوں کو نے اپنی جگہ چھوڑ کر ایک دوسرے کی جگہ لینے کی ترغیب دی ہے، اس باعث چوتھا ستون بھی کمزور پڑ چکا ہے، ذرا سوچیں اگر ریاست کی بلند و بالا عالیشان اور بھاری بھرکم کنکریٹ کی چھت کے چار ستون اپنی جگہ چھوڑ کر ایک دوسرے کی جگہ لینے کی کوشش کریںگے تو کیا ریاست کی عمارت دھڑام سے نیچے نہیں آ گرے گی؟
کسی بھی ملک کا آئین اُس تعمیراتی ڈرائینگ کی مانند ہے جس کے مطابق ریاست کا بلند و بالا ڈھانچاتعمیر کیا جاتا ہے، اگر اس ڈرائینگ کے برخلاف اور انجینیرنگ و سائنس کے اصولوں کے برعکس ان ستونوں پر کھڑی کثیر المنزلہ عمارت کے ڈھانچے میں براہ راست تبدیلی کی جائے تو عمارت اور اس کے مکینوں کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے، اسی لیے بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں جیسے ڈیفنس ہاؤسنگ میں منظور شدہ تعمیراتی نقشوں کے برخلاف کوئی بھی رہائشی یا کمرشل ڈھانچہ نہیں بنایا جاتا اور اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کو فوراً گرا دیا جاتا ہے، بلڈنگ کنٹرول کا یہ اصول ریاستی ڈھانچے پر بھی لاگو ہوتا ہے جس میں آئینی ترمیم یعنی آئینی انجینئروں کی اجازت کے بغیر تبدیلی نہیں کی جا سکتی، بدقسمتی سے ہمارے کچھ غیر آئینی انجینئروں نے گھریلو ٹوٹکوں کا استعمال کرتے ہوئے ۲۰۱۴ سے اِس ریاستی ڈھانچے میں ایسی ہی تبدیلی کا پراجیکٹ شروع کیا اور آج ریاست کی بلند و بالا عمارت جب اِس منصوبے کے بوجھ سے لرز رہی ہے تو اس عمارت کے آئینی نقشہ سازوں نے بھی ہاتھ اُٹھا لیے ہیں اور غیر سیاسی انجینئیرز اب اپنی غلطی کا اعتراف اور آئینی نقشے کے برخلاف ریاسی عمارتی ڈھانچے میں تعمیرات کو ختم کرنے کی بجائے مزید غیر قانونی تعمیرات کی مدد سے ریاست کو ملبے کا ڈھیر بنانے سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں.
اپنی غیر آئینی تجاوزات اور تعمیرات سے ریاستی ڈھانچے کے ستونوں کو لرزانے والے ابھی بھی اپنی غلطی مان کر خود کو آئینی ریاست کے قانون ساز انجینئیروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کو تیار نہیں، اب کی بار ریاست کو استحکام دینے کے نام پر نئی قسم کی تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات جاری ہیں۔
اس تمام صورتِ حال میں کہ جب ریاست کے اس کثیر المنزلہ رہائشی ریاستی ٹاور میں فلیٹوں کے مالکان سیاستدان ٹاور کی انتظامیہ/اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بن چکے ہیں تو ان فلیٹوں میں رہائش پذیر کرائے دار عوام کی زندگی خطرے میں پڑھ چکی ہے ۔ عوام کے پاس امید کی صرف ایک کرن باقی ہے اور وہ ہے اپنے ووٹ کا استعمال، مگر اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ الیکشن ہوں اور وہ بھی شفاف، اب الیکشن جب بھی ہوں ان کع شفاف بنانے کا اختیار بھی ان سیاستدان فلیٹ مالکان اور اس لرزتے ٹاور کی انتظامیہ کے ہاتھ میں ہے، مگر ایک چیز ہم کرائے دار عوام کے ہاتھ میں بھی ہے اور وہ ہے چند سوالوں کی ایک فہرست جس کا جواب اگلے الیکشن سے پہلے ہر سیاسی جماعت سے لینا لازمی ہے، یہ ایسے دو جمع دو والے سوال نہیں جن کا جواب چار بتا کر یہ سیاستدان آگے چل پڑیں جیسا کہ کیا آپ سویلین بالادستی کے حامی ہیں ؟
کیا آپ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے مخالف ہیں ؟ وغیرہ وغیرہ بلکہ یہ وہ سوال ہیں جن جواب جن کے جواب یا ان پر خاموشی سے ان سیاسی جماعتوں اور ان کے لیڈران کے دعوؤں کی سچائی یا ان کی منافقت عیاں ہو جائیگی، ان سوالوں کے جواب آئین پاکستان میں موجود ہیں، مگر سیاسی لیڈروں کیطرف سے ان سوالوں کے جواب سے واضح ہو جائے گا کہ اس ریاستی ٹاور کے فلیٹ مالکان ٹاور کی انتظامیہ/اسٹیبلشمنٹ سے مل کر منظور شدہ نقشے کے برخلاف تجاوزات کے ذریعے کرائے داروں کو اس ٹاور کے ملبے کے ڈھیر میں دفنائیں گی یا نہیں:
(۱) کیا آپ کی جماعت جنرل مشرف کے بعد سے آج تک سیاسی حکومتوں کے خلاف سازش میں ملوث جرنیلوں کے خلاف آرٹیکل چھ کی کاروائی کریگی؟
(۲) کیا جنرل باجوہ اور جنرل فیض کیخلاف آئینِ پاکستان یا آرمی ایکٹ کے تحت سیاسی انجینئیرنگ کے الزام پر مقدمہ چلایا جائے گا؟
(۳) کیا آپ کا وزیر دفاع آرمی، ائیر فورس و نیوی سربراہان کو اپنے دفتر میں طلب کر سکے گا؟
(۴) کیا آئی ایس پی آر کی جگہ وزارت دفاع کے ایسے ترجمان دفتر کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس میں تینوں افواج کی اپنی اپنی نمائندگی باوردی ترجمانوں اور وزارت دفاع کی ترجمانی ایک سویلین ترجمان کے ذریعے ہو؟
(۵) کیا آئی ایس آئی کا سربراہ کوئی سویلین یا ائیر فورس و نیوی سے تعینات کیا جائیگا؟
(۶) کیا آپ کی جماعت یا حکومت کالجز یونیورسٹیز میں طلبا یونین فوری طور پر بحال کرے گی؟
(۷) کیا فوج کو کاروباری اداروں سے مکمل طور پر الگ کر کے اِن اداروں کا سویلین سربراہ مقرر کر کے ان اداروں کا مفصل آڈٹ کرایا جائے گا؟
(۸) کیا ابھی تک خفیہ رکھی جانے والی تمام عدالتی کمیشنوں کی رپورٹ پبلک کی جائے گی جن میں حمود الرحمان کمیشن، حیات اللہ خان کمیشن، حامد میر کمیشن اور ارشد شریف شھید کی جے آئی ٹی کی رپورٹیں شامل ہیں؟
(۹) کیا دفاعی بجٹ کو مکمل طور پر پارلیمنٹ (ان کیمرہ ہی سہی) کے سامنے رکھا جائیگا اور فوج کی اداروں کی آڈٹ رپورٹ پبلک اکاؤنٹ کمیٹی (ان کیمرہ ہی سہی) کے سامنے رکھی جائیگی؟
(۱۰) کیا تمام اخبارات اور ٹی وی چینلوں کی اشاعت کے درست اعدادوشمار پبلک کر کے حکومتی اشتہارات کی ادائیگی کو شفاف بنایا جائیگا؟
(۱۱) کیا تمام سرکاری اداروں میں ریٹائرڈ سول اور فوجی افسران کو بعد از ریٹائرمنٹ دوبارہ نوکری یا ملازمت میں توسیع دینے پر پابندی لگائی جائیگی؟
(۱۲) کیا تمام سویلین اداروں سے فوج کے حاضر سروس یا کوٹے کے افسران کو واپس بھیجا جائے گا؟
(۱۳) کیا شھریوں کو لاپتہ کرنے والے ریاستی اہلکاروں کیخلاف کاروائی کرتے ہوئے ان افراد کو بازیاب کرایا جائیگا؟
(۱۴) کیا گذشتہ سات سال کے دوران عدالتی انجینئیرنگ میں ملوث ججوں کے خلاف جوڈیشل کونسل سے انکوائری کروا کے جوابدے بنایا جائیگا؟
(۱۵) کیا سپریم کورٹ میں ججوں کی تعیناتی کے لئیے سینیارٹی کے اصول پر عمل کیا جائیگا؟
(۱۶) کیا سپریم کورٹ کے سووموٹو اختیار متعلق پارلیمنٹ کے معطل شدہ قانون کو بحال کیا جائیگا؟
(۱۷) کیا پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں اور انکی قائمہ کمیٹیوں کی کاروائی کو براہ راست ٹی وی پر دکھایا جائیگا؟
اگر عوام کی طرف سے کیے گئے مزکورہ بالا تمام سوالوں کے جواب کسی ایک جماعت کیطرف سے “ہاں” میں ملتے ہیں تو وہ جماعت حقیقت میں جمہوریت کو مستحکم کرنے میں سنجیدہ ہے اور عوام کے ووٹ کی حقدار ہے اور اگرجواب نا میں ہے یا خاموشی میں تو پھر یہ قوم کوہلو کے بیل کی طرح آمریت کی اس راہٹ میں جتی رہے گی بلکل ایک رحم دل فلسفی کے پڑھائے اور تربیت یافتہ ان جنگلی طوطوں کی طرح جو بار بار شکاری کی ِپھرکی پر بیٹھ جاتے تھے اور الٹے لٹک کر فلسفی کا سبق بڑبڑاتے رہتے کہ “ہم شکاری کی پھرکی پر نہیں بیٹھیں گے اور اگر بیٹھیں گے تو پھُر سے اُڑ جائیں گے” اس کے بعد شکاری آتا تھا اور ان طوطوں کو بوری میں ڈال کر لے جاتا تھا۔