پسند کی شادی اور داڑھی پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ‘ریمارکس’
سپریم کورٹ نے میاں بیوی کے درمیان کم عمر بچوں کے حوالگی کا مقدمہ نمٹاتے ہوئے شریعت کے اُصول کا ذکر کیا ہے۔
منگل کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی عدالتی بینچ نے کم عمر بچیوں کو والد کے حوالے کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے صرف اتوار کو ملاقات کی اجازت دی۔
عدالت نے وکلا کے دلائل سننے کے بعد والدین کے اتفاق رائے سے مقدمہ نمٹایا اور دونوں کمسن بچیاں والدہ کے حوالے کر دیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ بچیوں کا باپ اتوار کو صبح 10 سے 5 بجے تک بچیوں سے ملاقات کر سکے گا، اور والد یا والدہ کی جانب سے عدالتی حکم عدولی پر توہین عدالت کی کاروائی ہو گی۔
عدالت کو بچیوں کے والد کے وکیل نے دلائل میں بتایا کہ بچیاں والد کے پاس ہونی چاہیں کیونکہ ماں رات کی نوکری کرتی ہے۔
وکیل کا کہنا تھا کہ ماں کے پاس بچیوں کی دیکھ بھال کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ کیا انہوں نے اسلام میں حضانت کا اصول پڑھا ہے یا نہیں؟ شریعت کے مطابق بچے ماں کے پاس رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں، ہمارے کام مسلمانوں والے نہیں، صرف داڑھی رکھنے سے بندہ مسلمان نہیں ہوتا عمل بھی ہونا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ نماز، روزہ اور حج کرنا کافی نہیں، انسانیت اور اخلاق بھی لازم ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا والدین کے درمیان طلاق نہیں ہوئی، آپس کی ناراضگی بچوں کا مستقبل خراب کر دے گی۔
چیف جسٹس نے بچیوں کے والد سے پوچھا کہ کیا کہ انہوں نے پسند کی شادی کی یا ارینج میرج تھی؟
جواب میں والد نے بتایا کہ انہوں نے پسند کی شادی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خود محبت کی شادیاں کر لیتے ہیں پھر مسائل عدالت کے لیے بن جاتے ہیں۔