پاکستان

انوار الحق کا بیرونی دورہ، آکسفورڈ یونین میں کیا کہا؟

ستمبر 27, 2023

انوار الحق کا بیرونی دورہ، آکسفورڈ یونین میں کیا کہا؟

آکسفورڈ یونیورسٹی کی یونین میں لیکچر یا گفتگو کے لیے پاکستان کے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے بہت دلچسپ طریقہ اختیار کیا اور وہاں اتنی ہی منفرد چیزیں سامنے آئیں۔

محقق و مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کے مطابق انوار کاکڑ نے ایک طالب علم کے ذریعے آکسفورڈ یونین سے رابطہ کیا۔

یہ طالب علم موجودہ ممبر پلاننگ کمیشن کا بھائی ہے۔ دو لیکچرز میں سے ایک اسلامک سنٹر میں اور دوسرا یونیورسٹی میں منعقد کیا گیا۔
دوسرا پروگرام ایک گھنٹہ طویل دورانیے کا تھا جس میں تقریباً 60 فیصد شرکا پاکستانی تھے۔

کاکڑ کا امریکہ و برطانوی سفر یقیناً تفریح کے لیے تھا۔
کوئی بھی اُن کی برطانوی وزیراعظم رشی سوناک کے ساتھ ملاقات کا انتظام نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اس طرح کی ملاقاتیں پہلے سے سفارتی کوشش کر کے طے کی جاتی ہیں۔

اطلاعات کے مطابق سیکرٹری خارجہ نے اس کے بعد اُن کے ہوٹل کا مختصر دورہ کیا۔ اب اس بے توقیری پر حیرت کیوں؟

گفتگو سے ایک گھنٹہ پہلے پاکستان کے ایک ایجنسی والے نے طلبا سے پوچھا کہ وہ وزیراعظم کے بارے میں کیسا محسوس کرتے ہیں اور وہ ان کا استقبال کیسے کریں گے۔

ان تقریبات کا اہتمام کسی ایسے شخص کی مدد سے کیا گیا تھا جو ایجنسی کے ریڈار پر ہے اور ممکنہ طور پر بلوچستان سے اگلے آنے والے کے طور پر تیار کیا جائے گا۔

تمام سوالات پاکستانیوں کی طرف سے پوچھے گئے اور کسی بھی غیرملکی طالب علم نے کچھ نہیں پوچھا یا نہ پوچھنے دیا گیا۔

انوار کاکڑ نے ارتقاء بمقابلہ فرانسیسی انقلاب کے آپشن کے بارے میں فلسفیانہ گفتگو کی اور یہ کہا کہ سیاسی ادارے یا عمل کے نہ پنپنے میں فوج کی کوئی غلطی نہیں۔

فوج کی اعلیٰ صلاحیت پر زور دیتے ہوئے کاکڑ نے چیئر لفٹ کے واقعے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ سول محکمے ناکام ہوئے اس لیے "ہم نے ملٹری سے درخواست کی کہ آ کر بچاؤ” اس طرح عبوری وزیراعظم فوج کو آرڈر نہیں کرتے بلکہ ان سے درخواست کرتے ہیں جس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب بھی فوج کے ہی زیر اثر ہیں۔

آکسفورڈ تقریب کے کچھ سنجیدہ شرکاء کا رد عمل یہ تھا کہ کاکڑ ایک ایسا دلدار ہے جو سوالات سے گریز کرنے میں اچھا ہے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی سوالات نہ پوچھے۔ زیادہ تر پاکستانی طلبا نے اس عمل کو پکڑ لیا۔

کاکڑ ہوشیار تھا کیونکہ اس نے اپنے آکسفورڈ کے سامعین کو یہ کہہ کر خوش کیا کہ "اگرچہ میں ایک قابل فخر مسلمان ہوں، میں احمدیوں کے اپنے مذہب پر عمل کرنے کے حقوق کے ساتھ کھڑا ہوں”۔
کاکڑ جانتا تھا کہ یہ سب وہاں موجود ہجوم کے لیے ہے لیکن میڈیا میں اس بات کی کوئی خبر نہیں دی گئی۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے