پاکستان

شہریوں کے جاننے کا حق، سپریم کورٹ نے اپنے خلاف مقدمے میں کیا کیا؟

ستمبر 27, 2023
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ فوٹو: پاکستان ٹوئنٹی فور

شہریوں کے جاننے کا حق، سپریم کورٹ نے اپنے خلاف مقدمے میں کیا کیا؟

سپریم کورٹ میں ایک شہری نے عدالت عظمیٰ میں کام کرنے والے ملازمین اور افسران کی تمام معلومات کے حصول کے اپنے حق کا دفاع کیا ہے۔

بدھ کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور جسٹس امین الدین خان و جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ کو شہری و درخواست گزار مختار احمد علی نے مشکل صورتحال سے دوچار کیا۔

ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان کے ساتھ سپریم کورٹ کی رجسٹرار جزیلہ اسلم بھی روسٹرم پر موجود رہیں۔

درخواست گزار مختار علی احمد نے خود دلائل دیے اور عدالت کو بتایا کہ وہ وکیل نہیں بلکہ ڈویلپمنٹ سیکٹر میں کام کرنے والے ایک شہری ہیں جو سپریم کورٹ کے معاملات میں بھی شفافیت دیکھنے کے خواہش مند ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ آئین کا آرٹیکل 19 اے کہتا ہے کہ ہر شہری کو معلومات تک رسائی کا حق ہے جو صرف اُن وجوہات کی حد تک محدود کیا جا سکتا ہے جہاں قوانین کہتے ہیں۔

درخواست گزار نے بتایا کہ اس حوالے سے قانون بھی موجود ہے اور اس قانون کے تحت ایک کمیشن بھی قائم ہے جو شہریوں کو معلومات فراہم نہ کرنے والے محکموں کے خلاف شکایات سُنتا ہے۔

چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ معلومات تک رسائی آئین میں دیے گئے بنیادی حق کے تحت مانگ رہے ہیں یا پھر متعلقہ قانون کے تحت؟

درخواست گزار نے بتایا کہ انہوں نے ابتدائی طور پر سپریم کورٹ کے رجسٹرارکو درخواست آئین کے آرٹیکل کے حوالے سے دی تھی اور قانون کا بھی ذکر کیا تھا تاہم جواب نہ ملنے پر وہ انفارمیشن کمیشن آف پاکستان میں شکایت لے کر گئے اور انہوں نے رجسٹرار سے جواب مانگا۔

مختار احمد علی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے جواب نہ دیا اور پھر کمیشن کے آرڈر کو واپس کرانے کے لیے وہاں درخواست دی جس کو کمیشن نے تسلیم نہ کیا۔

اس کے بعد سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے انفارمیشن کمیشن کے آرڈر کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالت کو بتایا کہ یہ سمجھ سے بالاتر معاملہ ہے کہ سپریم کورٹ ہی ہائیکورٹ کے سامنے درخواست گزار بن گئی۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے اُن سے پوچھا کہ یہ کیسے ہو گیا کہ رجسٹرار نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ ہائیکورٹ میں سپریم کورٹ کی جانب سے اپیل دائر کریں، کیا ایسا کرنا درست ہے؟

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار سے کہا۔ اُس وقت اٹارنی خالد جاوید خان تھے۔ اٹارنی جنرل کا دفتر سپریم کورٹ کی کسی بھی عدالت میں نمائندگی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ دفتر وفاقی حکومت کی قانونی نمائندگی کرتا ہے اور سپریم کورٹ وفاقی حکومت کا حصہ نہیں۔

سپریم کورٹ کے رجسٹرار کا مؤقف ہے کہ اعلیٰ عدلیہ آئینی ادارہ ہے اور یہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے قانون میں نہیں آتی، اس کو استثنیٰ حاصل ہے۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے رولز رجسٹرار کی اس اتھارٹی پر خاموش ہیں کہ اگر اس طرح کا کوئی مقدمہ آتا ہے یعنی سپریم کورٹ فریق ہوتی ہے تو کیا وہ خود سے درخواست بننے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چلیں اس طرح سمجھتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز صورتحال ہو یعنی انفارمیشن کمیشن کوئی غلط آرڈر جاری کر دے تو سپریم کورٹ کی طرف سے کون چیلنج کرے گا؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ‘اس وقت یہ صورتحال ہم سب کے لیے شرمندگی والی ہے، اور اٹارنی جنرل شاید آپ کے لیے بھی۔ٗ

اس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ لائٹر نوٹ پر تھا۔ ہم خود اپنا ہی کیس سُن رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان سے ازراہ مذاق پوچھا کہ چودھری صاحب، سپریم کورٹ کی جانب سے ہائیکورٹ میں پیش ہونے کی فیس ملی یا نہیں؟

عامر رحمان نے جواب دیا کہ انہوں نے رجسٹرار آفس کو ایک روپے کی رسید یا انوائس جاری کرنے کا کہا تھا مگر ابھی نہیں ملی۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پھر اُس کو انکم ٹیکس ریٹرن میں بھی ظاہر کرنا پڑے گا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے پوچھا کہ کیا یہ اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد مقدمہ ہے؟

اٹارنی جنرل نے اثبات میں جواب دیا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ دنیا کے باقی ملکوں میں ایسی صورتحال میں عدالتیں کیا کرتی ہیں؟ اس کی مثالیں بھی تلاش کر کے بتائیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین آرٹیکل 19 اے سپریم کورٹ کو معلومات تک رسائی فراہم کرنے کے معاملے میں استثنٰی نہیں دیتا۔ اس عدالت کو عوامی اہمیت کی تمام معلومات فراہم کرنا چاہییں۔ اس کے لیے طریقہ کار طے کیا جا سکتا ہے اور ایک افسر کی ذمہ داری بھی لگائی جا سکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے خلاف رِٹ نہیں ہو سکتی۔

یہ سوال بھی پوچھا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت متاثرہ فریق ہی رِٹ میں جا سکتا ہے، کیا اس کیس میں سپریم کورٹ متاثرہ فریق ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوامی تاثر کے لیے بھی اور شفافیت کے لیے بھی معلومات عام ہونا چاہییں۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ عدلیہ کی آزادی کا بھی معاملہ ہوتا ہے، کیا انفارمیشن کمیشن سپریم کورٹ کو آرڈر کر سکتا ہے؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عوامی اہمیت کی معلومات تو ہر صورت فراہم کرنا ہوں گی کیونکہ جاننا شہریوں کا حق ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا معلومات تک رسائی کے قانون میں فوج سے متعلق معلومات فراہم بھی شامل ہیں؟ وہاں تو استثنیٰ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ بعض اوقات اخلاقی پوزیشن مختلف ہوتی ہے مگر یہاں قانونی طور پر بھی معاملے کا جائزہ لینا ہے۔

درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کے دفتر کو اس قانون میں استثنیٰ حاصل نہیں، رجسٹرار بذات خود سپریم کورٹ نہیں، وہ انتظامی معاملات دیکھتے ہیں عدلیہ رجسٹرار سے الگ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 175 میں عدلیہ اور انتظامیہ الگ ہیں۔

درخواست گزار نے کہا کہ اُن کی استدعا عدلیہ یا عدالتی کام سے متعلق نہیں، وہ اس بلڈنگ اور سٹاف و افسران کے متعلق جاننا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس دلیل سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ سپریم کورٹ کے ملازمین کا تقرر یا اُن کو برطرف کرنا رجسٹرار کا اختیار نہیں، یہ سپریم کورٹ کرتی ہے یعنی چیف جسٹس اور ججز۔ رجسٹرار خود سے کچھ نہیں کر سکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ویکیوم میں حکم نامہ جاری نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے نتائج ہوں گے۔

درخواست گزار اور پھر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کے لیے ضروری ہے کہ اس کے اندرونی معاملات میں شفافیت ہو۔

جسٹس اطہر من اللہ اور بعد ازاں چیف جسٹس نے درخواست گزار سے کہا کہ وہ دیگر رولز اور قوانین کی طرف جا کر اپنا کیس خراب کر رہے ہیں، آرٹیکل 19 اے کے تحت اُن کی استدعا دیکھی جا سکتی ہے۔ اور فُل کورٹ اجلاس میں اس حوالے سے قواعد بنائے جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے مقدمے کی سماعت کے دوران متعدد بار کہا کہ یہ پیچیدہ قانونی و آئینی معاملہ ہے، اور یہ بہت دلچسپ صورتحال بھی ہے۔ ایسا کچھ ہے جو ہمارے لیے بھی نیا ہے۔

انہوں نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ اس حوالے سے دنیا بھر کیسز دیکھ کر تحریری معروضات پیش کریں۔ درخواست گزار کو بھی کہا گیا کہ وہ قانونی معاملے پر اپنی معروضات پیش کرنے کے لیے مزید تیاری کے ساتھ تحریری دلائل جمع کرا دیں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ان معروضات میں اس نکتے پر بھی دلائل دیں کہ کیا سپریم کورٹ اپنا کیس خود سُن سکتی ہے؟

عدالت نے سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے