میڈیائی بگاڑ اور منٹو کا افسانہ اوپر ، نیچے ، درمیان
Reading Time: 3 minutesنورالامین دانش
سعادت حسن منٹو نے اپنے مشہور زمانہ افسانے ”اوپر ، نیچے ، درمیان“ میں معاشرے کے تین مختلف طبقات دکھائے تھے جن کا مقصد ایک سا تھا۔ سوشل میڈیا پر صحافیوں پر تشدد کی فٹیجز اور فیض آباد دھرنا کیس میں ایک نجی ٹی وی کے چرچوں پر مشتمل میڈیا بگاڑ کی یہ کہانی تو بہت طویل ہے لیکن چند ایک چشم دید واقعات دل میں رکھنا شاید صحافتی بددیانتی ہو گی اور کیسے ہمارے صحافی دوست اپنی مجبوریوں کے باعث انکا شکار بنتے ہیں ۔
اس عظیم الشان داستان کا آغاز ایک ٹی وی چینل کے مالک کی جانب سے سابق وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات کے دوران انوکھی خواہش سے بہتر نہیں ہو سکتا جس میں وہ خان صاحب کو اپنی ملنگی اور غریب پروری کا نقشہ بیان کرتے ہوئے مدینہ اور خانہ کعبہ میں لنگر خانے ہٹائے جانے کی شکایت کرتے ہوئے انہیں دوبارہ کھلوانے کی درخواست کرتے ہیں .
معاملے کی جب چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا کہ ان صاحبان کو سعودی حکومت نے پہلے اس لئیے ہٹوایا کیونکہ یہ ایک دن لنگر کے نام پر اہتمام کر دیتے ہیں جبکہ باقی 6 دن وہاں اپنے کاروبار کے لیے سٹالز لگا دئیے جاتے ہیں۔ جب سعودی حکومت کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے فوری طور پر ایکشن لیا۔خواہشات اور کالا دھن سفید کرنے کا جنون پروان چڑھتے چڑھتے یہاں تک پہنچ گیا کہ اب شہر کے تمام قبضہ گروپس ، بلڈرز نے ٹی وی چینل بنا لیے لیکن اس میں ذلالت سالہا سال محنت سے مقام بنانے والے صحافیوں کو ہی جھیلنا پڑی۔
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ زندگی کے بیس سال شعبہ صحافت کو دینے والا صحافی قبضہ مافیا کا چینل جوائن کر کے پولیس کے مدمقابل کھڑا ہوتا۔
سپریم کورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت میں آپ سب نے 92 نیوز کے حوالے سے سنا ہو گا۔ بندہ نا چیز نے خود دیکھا جب جڑواں شہروں کی زندگی فیض آباد کے مقام پر اجیرن بنا دی گئی تھی تو اس چینل کی DSNGS میں مظاہرین کے لیے کھانا بھر بھر کے لے جایا جاتا تھا۔ ریاست ایک طرف کھڑی تھی اور ایک گھی فیکڑی کا مالک ریاست کو چیلنج کر رہا تھا بالآخر ریاست کو گھٹنے ٹیکنے ہی پڑے۔
اس طرح ایک چینل کے مالک صاحب انٹرویو میں پوچھ رہے تھے کہ ٹکٹس سستی لے لو گے یا مشکل ہے کھل کے بتاؤ تمہاری تنخواہ کا تعین اس حساب سے کریں گے اور تو اور بول نیوز میں دوران انٹرویو ایک بڑے صاحب نے مجھے کہا پاکپتن ڈی پی او جاننے والا ہے تو ٹھیک نہیں تو آئی جی سے کہلوا دو میرے دوستوں نے وہاں جانا ہے تو ڈی پی او ان کو پاکپتن ضلع کی حدود سے پروٹوکول میں لے جائے ، خیر میں نے تو اس نوسرباز کا نمبر ہی بلاک کر دیا ۔
صحافت رسوا ہوتے ہوتے شہر کے پراپرٹی ڈیلروں تک پہنچی اور اب تنخواہوں اور ہائرنگز تک فائلوں میں گھمانے والے مافیا نے ہائی جیک کر لیا ابھی مالکان کی رعونت و فرعونیت جاری ہوتی ہے کہ منٹو صاحب کے افسانے کے مطابق دوسرا طبقہ آ ٹپکتا ہے اور یہ ان وفاداران پر مشتمل ہوتا ہے جو اس مافیا کا نمائندہ کہلوانے میں فخر محسوس کرتا ہے اور خود چھوٹا سا چوہدری بن جاتا ہے ان کی زندگی کا واحد مقصد مالکان کی رکھوالی ہوتی ہے اور حفاظت کرتے کرتے یہ سی ڈی اے اور مختلف پارٹیوں کے تعاون سے کنال کنال کے گھروں میں اینٹوں، سریوں سے لیکر اے سی ، رنگ روغن اور تو اور سرکاری ہسپتالوں سے غریبوں کے لئیے موجود دوائی تک ان کی نظر میں ہوتی ہے۔
منٹو کا یہ درجہ دوئم پر فائز طبقہ مالکان سے بھی خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس نے وفاداری ثابت کرنے کے لئیے کسی بھی رکاوٹ کا خیال نہیں کرنا ہوتا۔ ایک بیوروچیف صاحب تھے وہ ٹیکنیکل سٹاف اور کیمرہ مینوں کو خرافات تک بکتے تھے اور ایک دو کو تو لاتوں گھونسوں سے ٹھیک ٹھاک مارتے دیکھا۔
منٹو کے افسانے کے تیسرے درجے پر فائز طبقہ زیادہ تر رپورٹر حضرات ہوتے ہیں جو بیچارے زیادہ تر اپنے معاشی مسائل کا شکار رہتے ہیں کیونکہ چینل اور اخبار کا پیٹ خبروں سے بھرنے والے اس طبقے کا پیٹ کبھی مالکان بھرنا پسند نہیں فرماتے کیونکہ اگر یہ خودمختار ہو گئے تو انکی غلامی کون کرے گا ، اچھا اس میں سے بہت سے کردار اوور کوٹ سے مشہابہت رکھتے ہیں۔
قصے کو یوں سمیٹا جا سکتا کہ ان مافیا نما چینل مالکان کا آلہ کار بننے سے پہلے ایک بار وینٹی لیٹر پر لگے ان صحافیوں کی زندگی سے موت تک کا سفر ضرور دیکھ لیجئے گا جب زندگی موت کی کشمکش میں آپ کو ایچ آر بتاتا کہ ہیلتھ کارڈ کی لمٹ ختم ہو گئی ہے اب مریض کو سرکاری ہسپتال شفٹ کر دیں اور یوں ساری زندگی استعمال ہونے والے صحافی ان مگرمچھوں کے کام کے نہیں رہتے تو ان سے کیسے رخ موڑا جاتا ہے۔
اللہ تعالی تمام دوستوں کے ساتھ خیر و عافیت کا معاملہ فرمائیں