کالم

پاکستانی سیاست کے چقندر اور کھیرے

اکتوبر 23, 2023 2 min

پاکستانی سیاست کے چقندر اور کھیرے

Reading Time: 2 minutes

ڈوپامین کے کھیل نرالے ہیں۔
مثلاً لیبارٹری میں سائنسدان بندروں کو اچانک کھانا ڈالتے تو بندروں میں خوشی کا کیمیکل ڈوپامین بڑھ جاتا۔ دوبارہ خوراک فراہم کی جاتی تو ڈوپامین دوبارہ بڑھ جاتا۔ تاہم جب یہی کھانا بار بار بندروں کو ملتا رہتا تو ان کی ڈوپامین ایکٹوٹی دوبارہ کم ہو جاتی۔ یعنی ڈوپامین کا تعلق متواتر خوشی سے نہیں، غیر متواتر یا کچھ الگ سی خوشی سے ہے۔

اب فرض کر لیتے ہیں بندروں کو چقندر صرف پسند ہے مگر کھیرا بہت ہی زیادہ پسند ہے۔ ایسے میں بندروں کو بار بار چقندر دے کر چقندر کا عادی بنا دینا آئندہ چقندر ملنے پر ان کا ڈوپامین نہیں بڑھائے گا۔ البتہ 22 برس چقندر کا عادی بنا کر پھر کھیرا دیا جائے تو بندروں کا ڈوپامین دوبارہ سپرچارج ہو جائے گا اور ان کی خوشی دیدنی ہوگی۔

اب فرض کریں بندروں کو 22 سال چقندر دینے کے بعد پہلے کھیرا دے کر ان کا ڈوپامین بڑھایا جائے، پھر ان کو یہی کھیرا چار سال ملتا رہتا ہے۔ ایک بار پھر، کھیرے کا عادی ہونے کے بعد بندروں کا دماغ ڈوپامین کے اخراج کی سرگرمی کم کر دے گا۔ یوں بندروں کی خوشی یا ایکسائٹمنٹ رک جائے گی۔

اب بائیس سال چقندر، چار سال کھیرے دینے کے بعد بندروں کو خوش کیسے کیا جائے؟

اس کا حل سادہ سا ہے۔

اب کی بار بندروں کو کھیرے اور چقندر دونوں ہی دینے بند کر دیے جائیں۔
یوں بندروں کو چقندروں کا دور بھی بھولنے لگے گا اور کھیروں کا دور بھی۔ اس کے بعد بندروں کو واپس چقندر والے دور میں لے جایا جائے مگر وہ بھی یوں کہ چقندر مقررہ اوقات پر دینے کی بجائے کبھی ایک وقت تو کبھی دوسرے وقت پر ڈالے جائیں۔ یعنی توقع کے برخلاف بندروں کو چقندر کھلائے جائیں تو ڈوپامین کے اخراج میں بہتری آئے گی اور بندر زیادہ خوش اور پرجوش محسوس کریں گے۔

ساتھ ہی ساتھ، کبھی کبھار، بطور تبرک اگر بندروں کو کھیرے کی تصویر دکھا دی جائے تو پھر تو بندروں کی خوشی کا ٹھکانہ ہی نہیں رہے گا۔ ہاں واپس چقندر کے دور مصائب میں پہنچ کر بندر زود رنج تو رہا کریں گے مگر کھیروں کے دور میں کھیرے کھا کھا کر جیسے پگلا گئے تھے، ویسے نہیں ہوں گے۔

یاد رہے ایسے بندر مکمل طور پر نارمل بندر تو نہیں بن سکیں گے تاہم کوشش کی جا سکتی ہے انہیں واپس نارمل بندر بنانے کی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پر جتنے تجربے ہو چکے ہوں گے، ان کا تھاٹ پراسیس بہت ناقابلِ مرمت حد تک تباہ ہو چکا ہوگا۔

بالکل خان صاحب کے بائیس سالہ دورِ چقندر کے بعد چار سال کھیروں سے محظوظ ہونے کے تجربات کے نتیجے میں ملنے والے ہمارے انقلابی انصافی بھائیوں کی طرح۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے