کالم

جہاں افیون اگتی ہے . حصہ دوم

نومبر 27, 2023 5 min

جہاں افیون اگتی ہے . حصہ دوم

Reading Time: 5 minutes

جہاں افیون اگتی ہے – تبصرہ و تلخیص
ہاجرہ خان(تبصرہ و تلخیص: معاذ بن محمود)

حصہ دوم

کچھ ہی عرصے میں ہاجرہ کو معروف پروڈیوسر طارق احمر کی جانب سے ایک عدد میگا بجٹ پروڈکشن میں اداکاری کی آفر آئی۔ اس آفر کو لے کر ان کے گھر والوں نے کافی مخالفت کی تاہم “بری عورت” کے نام سے بنائے جانے والے اس ڈرامے میں اداکاری کا موقع انہوں نے نہایت ہی کم رقم کے عوض قبول کر لیا۔ اس ڈرامے میں ان کا کردار اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ کر اپنے محبوب کے ساتھ زندگی گزارنے والی ایک عورت کا تھا۔ ڈرامے کے ڈائریکٹر معروف سنجیدہ شخص تھے جن کے بارے میں مشہور تھا کہ gay ہیں۔ ان ڈائریکٹر کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہاجرہ کے مطابق انہوں نے بہت جھڑکیاں بھی کھائیں مگر شوٹنگ کے درمیان سیکھا بھی بہت۔

کچھ ہی عرصے بعد ہاجرہ کو ایک پارٹی میں ایک صاحب کی جانب سے چاندی کی تھال میں کوکین کی پیش کش کی گئی۔ ہاجرہ کے مطابق انہیں نشے سے خوف آتا تھا۔ اس کی وجہ ان کے پینک اٹیکس تھے۔

ہاجرہ کا پہلا ڈرامہ ۲۰۰۹ میں نشر کیا گیا جس پر ملا جلا ردعمل آیا۔ کچھ حلقوں نے اسے روایات سے ہٹ کر ہونے کے باعث لعن طعن کا حق دار ٹھہرایا تو دیگر نے اسے خواتین اور فیمنزم کے حق میں تعریف کا مستحق ٹھہرایا۔ تاہم ہاجرہ کے لیے اہم بات ان کی اداکاری اور سکرین پر ان کی موجودگی تھی۔

جلد ہی ہاجرہ کے مطابق ان کے ڈائریکٹر نے ان کے ساتھ فلرٹ شروع کر دیا اور ڈیٹ پر مصر ہوگئے۔ آخرکار ہاجرہ نے ایک ڈنر پر آمادگی ظاہر کی جس کے بعد ڈائریکٹر مزید ڈیٹس کا اصرار کرنے لگے۔ اسی دوران ہاجرہ ہاجرہ نے مذکورہ بالا ڈائریکٹر کے شادی شدہ ہونے کی افواہ سنی انہوں نے ڈائریکٹر سے استفسار کیا جس پر ناصرف ڈائریکٹر کی جانب سے شادی شدہ ہونے کا اعتراف سامنے آیا بلکہ انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ ہاجرہ کے علاوہ بھی دیگر کئی خواتین سے ڈیٹ کے خواہش مند رہتے ہیں۔ یہ تمام انکشافات ہاجرہ کے لیے ناقابل یقین تھے۔ ایک بار پھر ہاجرہ نے تہیہ کیا کہ مردوں سے دور ہی رہنا ہے۔

چند ماہ بعد ہاجرہ کو انڈسٹری میں لوگ جاننے لگے اور محافل میں مدعو کرنے لگے۔ انہی میں سے ایک محفل جہانزیب عاصم کے گھر منعقد ہوئی۔ جہانزیب ایک معروف صنعت کار تھے جو اکثر سیلبرٹیز کو اپنے گھر پارٹیز میں مدعو کیا کرتے۔ ہاجرہ کے مطابق انہیں اکثر یہ احساس ہوتا کہ وہ اس ماحول میں فٹ نہیں بیٹھتیں۔ جہانزیب دیگر کئی فنکاراؤں کو بھی جانتے تھے جن میں سے ایک معروف اور ابھرتی ہوئی اداکارہ فاریہ عبد اللہ تھیں۔ ہاجرہ کے مطابق ان کا خیال تھا کہ فاریہ ان حلقوں میں اچھی خاصی مقبول تھیں اور اکثر اوقات ایسا لگتا جیسے یہ پارٹیز منعقد شاید وہی کرواتی ہیں جبکہ جہانزیب عاصم کا کام فقط جگہ فراہم کرنا ہوتا ہے۔

ہاجرہ کا کہنا ہے کہ اسی محفل میں انہیں بتایا گیا کہ عمران آنے والے ہیں۔ ہاجرہ نے پوچھا کون عمران کیونکہ وہ اس نام سے انڈسٹری میں کسی بھی معروف ہستی سے ناواقف تھیں جس پر انہیں بتایا گیا کہ عمران خان کا ذکر ہے۔ ہاجرہ کے مطابق کچھ دیر میں عمران خان اس محفل میں موجود تھے۔ وہ باقی لوگوں سے الگ تھلگ تھے۔ ان کی موجودگی میں باقی کے شرکاء بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ہاجرہ اس بات سے متاثر ہوئیں کہ عمران خان تمباکو نوشی اور شراب نوشی دونوں سے گریز کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں جہانزیب عاصم نے ہاجرہ کو عمران سے متعارف کروانے کی آفر کی جو کچھ پس و پیش کے بعد ہاجرہ نے قبول کی۔ ہاجرہ کے مطابق ان کا عمران سے پہلا سوال یہ تھا کہ آج کل آپ کا کس سے پھڈا چل رہا ہے جس پر عمران خاموش رہے۔ ہاجرہ نے دوبارہ سے ہنستے ہوئے کہا کہ میں جب بھی آپ کو ٹی وی پر دیکھتی ہوں آپ کسی نہ کسی سے لڑ ہی رہے ہوتے ہیں۔ اس پر عمران خان نے آسکر وائلڈ کا غلط اقتباس پیش کرتے ہوئے کہا کہ ذکر کیا جانا مذکور نہ ہونے سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ ہاجرہ نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ اصل اقتباس کچھ یوں ہے کہ زندگی میں فقط ایک چیز کسی کے بارے میں بات کیے جانے سے بری ہے اور وہ ہے کسی کے بارے میں سرے سے بات ہی نہ کیا جانا۔ اس پر عمران خان ہنس پڑے۔ اس کے بعد ہاجرہ کی کافی دیر تک عمران سے بات ہوتی رہی۔ ہاجرہ نے انہیں بتایا کہ کاش وہ پچھلے انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتے کیونکہ وہ (عمران خان) زیادہ سے زیادہ عوام کو ووٹ دینے پر آمادہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ہاجرہ کے مطابق میں نے عمران کو بتایا کہ میں آپ کو ووٹ دینا چاہتی ہوں۔ ہاجرہ نے عمران سے ملک میں جانوروں کی فلاح سے متعلق بھی بات کی۔ انہوں نے عمران کو بتایا کہ گاندھی کے مطابق قوم کی عظمت اور اخلاقی ارتقاء کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے جانوروں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھتی ہے۔ گاندھی کا ذکر سن کر عمران کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے جس پر ہاجرہ نے کہا کہ میں جانتی ہوں آپ محب وطن ہیں اور گاندھی بھارتی تھے تاہم ایک اچھا ہمیشہ اچھا ہی رہتا ہے اور گاندھی اپنے ملک کے لیے ایک اچھے لیڈر تھے۔

ہاجرہ لکھتی ہیں کہ کچھ ہی دیر میں عمران وہاں سے روانہ ہوگئے۔ ان کے جانے کے بعد جہانزیب عاصم ہاجرہ کے پاس آئے اور کہا کہ عمران خان کو ایس ایم ایس بھیج دو۔ ہاجرہ کو اس پر حیرت ہوئی کہ میں انہیں جانتی نہیں نہ ہی میں ان لوگوں میں سے ہوں جو معروف و مقبول لوگوں پر نچھاور ہونے کو تیار رہوں۔ ہاجرہ نے یہ بھی کہا کہ عمران آخر کیوں مجھ سے بات کرنا چاہیں گے؟ اس پر جہانزیب عاصم نے اصرار کیا کہ دراصل عمران ہی ایسا چاہتے ہیں تاہم وہ خود ایسا نہیں کر سکتے لہٰذا ہاجرہ ہی کو عمران سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ ہاجرہ کے مطابق اس وقت انہیں یہ عجیب لگا تاہم وہ اندر ہی اندر عمران کا نمبر ملنے پر خوش ضرور تھیں۔

واپسی پر انہوں نے عمران خان کو ٹیکسٹ کیا اور اپنی دوست سحر سے بات کرنے لگی۔ سحر کچھ کٹی کٹی سے محسوس ہوئی۔ ہاجرہ نے انہیں بتایا کہ عمران کس قدر عجز و انکساری سے بھرپور شریف انسان ہیں۔ سحر نے ایک بار پھر جواب دینے سے گریز کیا۔ اب کی بار ہاجرہ کے مطابق انہوں نے سحر کی جانب دیکھا اور پوچھا کہ تم اسے جانتی ہو ناں؟ سحر نے اثبات میں سر ہلایا۔ ہاجرہ نے پوچھا کیا تم اسے اچھی طرح جانتی ہو؟ اس پر سحر نے محتاط انداز میں جواب دیا۔۔ “میں اسے (عمران خان کو) کئی سالوں سے جانتی ہوں اور ایک عرصے تک ویسا ہی مانتی رہی جیسا تم کہہ رہی ہو۔ تاہم اسے قریب سے جاننا اچھا نہیں”۔ ہاجرہ کے مطابق اس شام وہ کافی تھکی ہوئی تھیں لہٰذا سحر کی زیر لب بڑبڑاہٹ کو ٹھیک سے سمجھ نہ پائیں۔

ہاجرہ کے مطابق اسی اثناء میں عمران خان کا جواب موصول ہوا۔۔ “تم نہایت پرکشش اور عقل مند خاتون ہو۔ کاش میں تمہارے ساتھ زیادہ دیر تک بیٹھ کر بات کر سکتا”۔ اس وقت یعنی رات کے تین بجے ہاجرہ لکھتی ہیں کہ میرا قہقہہ چھوٹ گیا۔ عظیم عمران خان نے میرے بارے میں دلکش باتیں کہی تھیں۔ عمران خان کا ٹیکسٹ میسج ہی میرے لیے سنڈریلا جیسا تھا۔ یہ ایک نفیس انسان کے ساتھ چند خوبصورت لمحات پر مبنی رابطے کا اختتام تھا۔ ایک ایسا انسان جو مستقبل میں تبدیلی لانے والا تھا۔

کتاب کے اگلے حصے کو ہاجرہ نے “بڑھتی حدت” کا نام دیا ہے۔ اس حصے کا آغاز ہاجرہ اگلی صبح عمران کے غیر متوقع پیغامات سے کرتی ہیں جس میں درج ذیل شامل ہیں۔۔۔

“آج تمہارے شہر میں موسم بہت گرم ہے” (عمران خان اس وقت کراچی میں موجود تھے)۔

“کل رات تم نہایت کمزور اور نشے میں چور تھیں”

“تمہیں مجھ جیسے شکاریوں سے نہایت محتاط رہنا چاہیے “

“ہم اس عمر میں خوب شرارتی ہوجاتے ہیں”

ہاجرہ کے مطابق انہیں عمران کی جانب سے الفاظ کا انتخاب کافی عجیب محسوس ہوا۔ عمران کے ساتھ پیغامات کا تبادلہ جاری رہا اور پھر عمران نے انہیں لاہور میں اپنے کینسر ہسپتال کی فنڈ ریزنگ کی تقریب میں آنے کی دعوت دے ڈالی۔ ہاجرہ نے عمران سے ڈریس کوڈ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ لاہور بیک وقت قدامت پسند اور چہل پہل سے بھرپور جگہ ہے۔ ہاجرہ نے جواب دیا کہ میں ساڑھی پہنوں گی۔ اس پر عمران نے کہا “تم ساڑھی میں کمال دکھائی دو گی۔ تجربہ کار آنکھیں پہلے ہی معائنہ کر چکی ہیں”۔ ہاجرہ لکھتی ہیں کہ عمران نے انہیں ہئیر سٹائلنگ اور میک اپ سے یہ کہہ کر منع کیا کہ “تمہارا حسن اور جوانی ہی چمکنے کو کافی ہیں”۔

(جاری ہے)

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے