عمران خان کے دی اکانومسٹ میں چھپنے والے مضمون کا اردو خلاصہ
Reading Time: 4 minutesاس وقت پاکستان میں نگران حکومتیں ہیں جو غیر آئینی ہیں کیوں کہ صوبائی اور وفاقی دونوں سطح پر نوے دن میں الیکشن نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی آئینی مدت سے تجاوز کر چکی ہیں۔
آٹھ فروری 2024 کو الیکشن کے اعلان کے باوجود عوام اس کے انعقاد سے متعلق شکوک کا شکار ہیں کیوں کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود نوے دن میں الیکشن منعقد نہیں ہوسکے تھے۔
اپنی متعصب حرکتوں کی وجہ سے الیکشن کمیشن کا کردار داغدار ہوچکا ہے – سپریم کورٹ کی حکم عدولی کرنا ‘ تحریک انصاف کے لیڈروں کے نامزدگی پیپر کو مسترد کرنا ‘ انٹرآ پارٹی ایلکشن اور انتخابی نشان کو نشانہ بنانا ‘ اور ان حرکتوں پر تنقید پر مجھ پر اور باقی رہنماؤں پر "توہین الیکشن کمیشن ” کے مقدمے کرنا ‘ یہ وہ داغ ہیں جنہوں نے اس کمیشن کے کردار کو داغ دار کردیا ہے –
مارچ 2022 کے عدم اعتماد کے ووٹ سے لے کر اب تک کے حالات نے واضح کردیا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ اور بیوروکریسی تحریک انصاف کو لیول پلینگ فیلڈ دینے کو تیار نہیں – امریکہ کے دباؤ میں آکر ہماری حکومت کو برطرف کیا گیا کیوں کہ ہمارا موقف آزاد خارجہ پالیسی اور برابری کی بنیاد پر دوستی تھا – ہمآرا موقف واضح تھا کہ ہم امریکا کی کسی ایسی پراکسی وار کا حصہ نہیں بنیں گے جس کے نتیجے میں اب تک ہم اسی ہزار پاکستانیوں کی جانیں گنوا چکے ہیں۔
مارچ 2022 میں امریکی محکمہ خارجہ کے ایک افسر نے پاکستانی سفیر سے ملاقات کی جس میں یہ پیغام دیا گیا کہ عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے عمران خان کی حکومت کو برطرف کیا جائے ورنہ اس کے نتائج بھگتنا ہونگے – اس کے بعد کچھ ہفتوں میں ہماری حکومت برطرف ہوگئی جس کے بعد مجھے یہ انکشاف ہوا کہ سابق ملٹری چیف قمر باجوہ ہمارے اتحادیوں اور ہمارے لوٹوں (پارلیمانی بیک بینچرز ) کے ساتھ مل کر کئی مہینوں سے اس حکومت کو برطرف کرنے کیلئے کام کر رہے تھے۔
حکومت گری تو لوگ ہماری حمایت میں سڑکوں پر نکل آیے – مقبولیت اتنی بڑھی کہ اگلے 37 ضمنی انتخابات میں سے 28 میں پی ٹی ای بازی لے گئی۔ اگلے کچھ مہینوں میں بہت سے جلسے اور ریلیاں ہوئیں جن میں سب سے منفرد بات کثیر تعداد میں عورتوں کی شمولیت تھی۔
پی ڈی ایم کی جو مخلوط حکومت بنی اس کے دور حکومت میں ملک میں مہنگائی میں شدید اضافہ اور کرنسی میں گراوٹ دیکھنے کو ملی – اس کے برعکس ہماری حکومت نے نہ صرف ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا بلکہ کرونا کی وبا کے دوران بھی بہترین حکمت عملی کی وجہ سے عالمی سطح پر پذیرائی پائی تھی – ہمارے دور میں شرح نمو 6 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔
ہماری اس مقبولیت اور ملک کے بگڑتے حالات نے پاکستان کے طاقتور حلقوں کومزید فکرمند کردیا – ان سب کے باوجود اسٹیبلشمنٹ یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ مجھے کبھی دوبارہ اقتدار میں نہیں آنے دیگی ‘ سو مجھے روکنے اور راستے سے ہٹانے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے گیے – مجھ پر دو قاتلانہ حملے ہویے ‘ میری پارٹی کے رہمناؤں ‘ ورکرز ‘ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اور صحافیوں کو اغوا کیا گیا ‘ اور تشدد ‘ دباؤ ‘ گرفتاری در گرفتاری کے ذریے یہ پریشر ڈالا گیا کہ وہ تحریک انصاف کی سپورٹ چھوڑ دیں اور اس تشدد اور فسطایت سے تحریک انصاف کی عورتوں کو بھی نہ بخشا گیا – مجھ پر اس وقت بھی دو سو سے زیادہ مقدمے دائر ہیں اور مجھ پر سایفر کیس میں ٹرائل بند کمرے میں ہورہا ہے جہاں اوپن ٹرائل کا حق بھی نہیں دیا جا رہا۔
نو مئی کو ایک فالس فلیگ آپریشن کیا گیا اور فوجی تنصیبات پر حملے کا الزام بھی پی ٹی ای پر لگا کر اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں ہزاروں کارکنوں کو گرفتار اور اغوا کیا گیا ‘ اور ان پر مجرمانہ الزامات لگا کر ان کا ٹرائل کیا گیا – جس تیزی سے یہ سب کیا گیا اس نے واضح کردیا کہ نو مئی تحریک انصاف کے خلاف ایک منظم منصوبہ تھا۔
اس کے بعد بہت سے کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا – اس ضمن میں بہت سی جبری پریس کانفرنسز کے ذریے بہت سے ممبرز کی وفاداری تبدیل کروائی گئی’ ان کو سیاست چھوڑنے اور میرے خلاف گواہی دینے پر مجبور کیا گیا.
اس سب کے باجود آج بھی تحریک انصاف عوام میں سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے – جس کا ثبوت ” پٹن کولیشن ” کا وہ حالیہ سروے ہے جس میں 66 فیصد حمایت میرے ساتھ ہے – اس حمایت کی وجہ سے الیکشن کمیشن روزانہ پارٹی کو انتخاب لڑنے کے اس کے قانونی حق سے محروم کرنے کیلئے نئی نئی چالیں چلتا ہے اور سب دیکھتے ہویے بھی مصلحتا خاموشی پر عدالتیں روزانہ اپنی ساکھ کھوتی جا رہی ہیں۔
اسی دوران کرپشن کے الزام میں سپریم کورٹ سے سزا یافتہ مجرم اور اشتہاری قرار دیے جانے والے نواز شریف ملک میں واپس آچکے ہیں جو میرے خیال میں ایک ڈیل کے تحت لندن سے آیے ہیں جس کے مطابق ان کے سب کیس معاف ہوجائیں گے اور اسٹیبلشمنٹ ان کو ” منتخب” کروانے کیلئے جان لگاۓ گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے عوام اس ’سلیکٹڈ‘ کو مسترد کر چکے ہیں۔
آج ملک میں باقی جماعتوں کو تو کیمپین اور جلسے جلوسوں کی مکمل اجازت ہے لیکن ہماری جماعت کو روکا جارہا ہے – میں غداری کے مضحکہ خیز مقدمے میں قید ہوں – اور ہمارے کچھ رہنما جو اگر آزاد ہیں بھی ‘ تو بھی ان کو ایک کنونشن تک کرنے کی بھی اجازت نہیں۔
یہ سب جو میں نے اوپر لکھا ‘ ان حالات میں آٹھ فروری کے انتخابات کیسے آزادانہ ہوسکتے ہیں ؟ ایسے میں الیکشن ہو بھی گیے تو وہ ایک مذاق بن جائیں گے جس سے ملک میں مزید سیاسی عدم استحکام آئیگا جو پہلے سے موجود معاشی عدم استحکام کو بد تر کرے گا۔
اگر آج ہمیں آگے بڑھنا ہے تو اس کا واحد حل "آزاد اور شفاف” "الیکشن کا انعقاد ہے جو ملک میں سیاسی استحکام اور قانون کی پاسداری کو یقینی بنائیگا- اور یہ تب ہی ممکن ہے جب نئی آنے والی حکومت جمہوری اور عوام کے مینڈیٹ سے منتخب ہونے والی ایک مظبوط حکومت ہو جو سب ریفارمز کر سکے کیونکہ ووہی اقتدار مظبوط ہوتا ہے جو جمہور کا اقتدار ہوتا ہے۔
ترجمہ: ڈاکٹر وقاص نواز