اپوزیشن کا بائیکاٹ، بنگلہ دیش میں حسینہ واجد پھر کامیاب
Reading Time: 2 minutesبنگلہ دیش میں حکمران جماعت کو اقتدار میں رکھنے کے لیے ہونے والے عام انتخابات کا اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا جس کے بعد ووٹرز کا ٹرن آؤٹ بہت کم رہا۔ اور حسینہ واجد کی عوامی لیگ پانچویں بار جیت گئی.
بنگلہ دیش کی کُل آبادی کا 70 فیصد بطور ووٹر رجسٹرڈ ہے جن کی تعداد 11 کروڑ 90 لاکھ ہے۔
ملک بھر کے 42 ہزار پولنگ سٹیشنز کی حفاظت کے لیے لگ بھگ سات لاکھ سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے۔
بنگلہ دیش کے عام انتخابات کی شفافیت کا جائزہ لینے کے لیے دنیا بھر سے 200 مبصرین پولنگ ڈے پر موجود رہے۔
برسراقتدار عوامی لیگ کو کسی بڑے حریف کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ مرکزی اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور اس کے اتحادیوں نے اتوار کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا۔
بی این پی کئی ماہ سے موجودہ حکومت کے زیرِنگرانی الیکشن کو ماننے سے انکاری تھی اور اُن کا مطالبہ تھا کہ غیر جانبدار نگران حکومت کے تحت عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔
الیکشن کمیشن کے سربراہ قاضی حبیب الاول نے بتایا کہ ووٹر ٹرن آؤٹ تقریباً 40 فیصد رہا۔
الیکشن کمشنر نے ڈھاکہ میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’یہ ٹرن آؤٹ کا ایک تخمینہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ تمام ڈیٹا سامنے آنے کے بعد ڈالے گئے ووٹوں کی شرح گر یا بڑھ سکتی ہے۔‘
2018 کے انتخابات میں بنگلہ دیش کا مجموعی ووٹر ٹرن آؤٹ 80 فیصد سے زیادہ تھا۔
ووٹنگ کے عمل کی مانیٹرنگ کرنے والے غیر ملکی مبصرین نے کہا کہ بنگلہ دیش کے انتخابات بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے انتخابی مشاہدے کے مشن کے سربراہ شاکر محمود بندر نے ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ ’انتخابی عمل منظم اور پرامن تھا۔‘
دارالحکومت کے مختلف پولنگ سٹیشنوں پر ووٹرز کا کم ٹرن آؤٹ واضح طور پر نظر آیا۔