الیکشن میں دھاندلی اور دائروں کا سفر
Reading Time: 8 minutesوقت اور تاریخ دونوں ہی ظالم ہیں۔ زندگی کے معاملات میں بعض دفعہ وقت انسان کوایک دو راہے پرلا کھڑا کرتا ہے جہاں فیصلہ کرنے کے لیے فقط چند لمحوں کی مہلت ملتی ہے۔اب یہ اس شخص پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ان چند لمحوں میں سقراط کا رستہ اختیار کرتا ہے یا سقراط کو زہر دینے والوں کا۔ کراچی کا حافظ نعیم الرحمن بنتا ہے یا چکوال کا سردار غلام عباس۔ یہ فیصلہ کن گھڑی جلد ہی ماضی میں ڈھل کر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے اور تاریخ میں صرف دو ہی سمتیں ہوتی ہیں، ایک صحیح اور دوسری غلط۔صحیح سمت کا انتخاب کرنے والے بہت کم ہوتے ہیں کہ یہ وقتی طور پر گھاٹے کا سودا ہوتا ہے۔ دوسری طرف تاریخ کی غلط سمت کو ترجیح دینے والوں کا ایک ہجوم ہوتا ہے جو وقتی طور پر یا تو اپنے ضمیروں کا سودا کر لیتے ہیں یا پھر ہوتے ہی مردہ ضمیر ہیں۔
یونانی کہاوت ہے، ”دیوتا جسے برباد کرنا چاہیں، پہلے اسے پاگل بنا تے ہیں“۔ ہم پاگل بن چکے ہیں کہ ہمیں دیوار پر لکھا ابھی تک سمجھ نہیں آرہا۔ اور اگر سمجھ آ بھی رہا ہے تو ہم اسے تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ آٹھ اور نو فروری کی درمیانی شب کس بے شرمی اور ہٹ دھرمی سے واردات ڈالی گئی؟ کون ایسا ہے جواس بات سے بے خبر ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو گزشتہ اکیس ماہ سے بد ترین ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ کون اتنا بھولا ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ رات کی تاریکی میں پولیس اور نامعلوم افراد پی ٹی آئی کے سرکردہ کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارکر ان کو الیکشن سے پہلے اٹھا لے گئے؟کون اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ الیکشن سے پچیس روز قبل ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر دیا گیا؟ کون نہیں جانتا کہ پی ٹی آئی کے سربراہ سمیت تمام رہنماؤں پر درجنوں مقدمات بنائے گئے اور بوگس ٹرائل کر کے سزائیں سنائی گئیں؟ پہلے سے ہی جیل میں قید شخص کے خلاف ایک ہفتے میں تین فیصلے سنا کر آپ اسے مزید کتنا قید کرنا چاہتے تھے؟ لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود، ”الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا“۔
تاریخ کی بدترین انتخابی دھاندلی کے باوجوددنیا نے عجب تماشا دیکھا اور وہ یہ کہ الیکشن جیتنے کے لیے نہ ہی امیدوار کا حلقے میں ہونا ضروری ہے اور نہ ہی کسی قسم کی انتخابی مہم چلانا لازم ہے۔ اگر لیڈر ڈٹ جائے تو انتخابی نشان بھی بے معنی ہو جاتا ہے۔دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ایک شخص جیل میں قید رہ کر بھی میدان فتح کر سکتا ہے۔
آپ عمران خان سے ہزار اختلافا ت کریں۔ اس حقیقت کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن تاریخ کے اوراق میں یہ حقیقت محفوظ ہو چکی ہے کہ عمران خان نے نہ صرف پاکستانی معاشرے کی سیاسی سوچ کو بدل کر رکھ دیا ہے بلکہ دنیا میں ایک نیاریکارڈ بھی بنا دیا ہے کہ پابند سلاسل ہونے کے باوجود بھی میدان فتح ہو سکتا ہے۔
2018میں ”عمران پراجیکٹ“کو لانچ کرنے سے اتنی تباہی نہیں ہوئی تھی جتنی تباہی اب اس پراجیکٹ کو ڈسمینٹل کرنے میں ہو رہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جتنے وار اس پراجیکٹ کو ڈسمینٹل کرنے پر ہوتے ہیں یہ پراجیکٹ اُتنا ہی مضبوط ہو کر ابھرتا ہے۔ وجہ سادہ سی ہے۔ آج تک جتنی بھی ”شاہی جماعتیں“ پیدا کی گئیں ان کو پاکستان کی عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی لیکن عمران خان اور ان کی جماعت کی پشت پر پاکستان کے عوام کی اکثریت کھڑی ہے۔
کہا جاتاہے کہ 1970میں لہر اٹھی تھی۔ مغربی پاکستان میں تو وہ لہر ہی تھی جہاں قومی اسمبلی کی 144نشستوں میں سے 81ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نے جیتیں اور پھر خواتین کے لیے مخصوص نشستوں میں سے پانچ نشستیں حاصل کر کے تعداد 86ہوگئی۔ لیکن مشرقی پاکستان میں وہ لہر نہیں بلکہ ریلہ تھا جہاں 169نشستوں میں سے 160شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ لے اڑی۔ سات مخصوص نشستیں لے کر عوامی لیگ کے پاس 167نشستیں ہو گئیں۔ حکومت بنانے کے لیے 151نشستیں درکار تھیں لیکن شیخ مجیب الرحمن کی جماعت کو حکومت بنانے نہ دی گئی۔ وہ ہٹ دھرمی پاکستان کے دو ٹکڑے کر گئی۔ 54 برس کے بعد ویسا ریلہ عمران خان لے کر آیا ہے۔ بدترین ریاستی جبر کے باوجود یہ ریلہ سب کچھ بہا کر لے گیا۔
آٹھ اور نو فروری کی درمیانی شب کو واردات صرف راولپنڈی ڈویزن میں ہی نہیں ڈالی گئی بلکہ گجرات، سیالکوٹ اور لاہور میں بھی عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیا۔
چکوال میں مسلم لیگ ن کے امیدوار بری طرح پٹ گئے ہیں۔ چکوال کے سب سے زیادہ با اثر سیاستدان سردار غلام عباس کو بد ترین شکست کا سامنا ہوا اور وہ بھی ایک غیر معروف امیدوار سے۔ سردار عباس کی شکست کی چار وجوہات رہیں۔ پہلی وجہ تو عمران خان کا سونامی تھا جو نہ صرف سردار عباس کو این اے 59سے بہا لے گیا بلکہ ان کے آبائی حلقے پی پی 22سے بھی ان کو ہر یونین کونسل میں تارے دکھاتا گزر گیا۔
این اے 59میں بدترین شکست کی دوسری وجہ یہ رہی کہ سردار عباس کا ووٹ بنک تلہ گنگ کے حلقہ این اے 59میں نہیں بلکہ چکوال کے حلقہ این اے 58میں تھا۔ تیسری وجہ اہلیانِ تلہ گنگ کا چکوال والوں کے ساتھ وہ تعصب ہے جس کو پروان چڑھانے میں چکوال کے اکابرین کا اہم کردار رہا ہے۔ تلہ گنگ والے گجراتیے کو تو قبول کر سکتے ہیں لیکن ایک چکوالیا انہیں ہر گز قبول نہیں.
انتخابی مہم کے دوران ٹمن کے ایک سردار نے مجھے کہا کہ جس شخص کو آپ نے تلہ گنگ فتح کرنے کے لیے بھیجا ہے وہ ناکام لوٹے گا۔
سردار عباس کی شکست کی چوتھی وجہ تلہ گنگ کو ضلع کا درجہ ملنا ہے جو حافظ عمار یاسر کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ حافظ عمار یاسر نے تلہ گنگ کے باسیوں کو یہ کامیابی سے باور کروا دیا تھا کہ چکوال کے سیاستدانوں نے تلہ گنگ کے ضلع بننے کے عمل میں روڑے اٹکائے ہیں۔
پانچویں وجہ مذہبی تھی۔ تلہ گنگ کے خطے میں دیوبندی فرقے کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے۔ سردار عباس چھلاووں کو دعائیں دیں جنہوں نے ان کی بد ترین شکست کو رات کے اندھیرے میں فتح میں بدل دیا۔
کس فارمولے کے تحت چھلاوں نے سردار عباس کی شکست کو فتح میں بدلنے کے لیے تلہ گنگ کے 24547باسیوں کے ووٹوں کو مسترد کر کے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا؟چوبیس پچیس ہزار ووٹوں سے بلوچستان کا ایم این اے منتخب ہو جاتا ہے لیکن تلہ گنگ کے 24547باسیوں کے ووٹ مسترد کر کے نہ صرف تلہ گنگ کے باسیوں کی توہین کی گئی بلکہ ساتھ یہ پیغام بھی دیا گیا کہ تلہ گنگ کے 24547افراد اتنے جاہل ہیں کہ انہیں ووٹ ڈالنے کا بھی ڈھنگ نہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں پاکستان کے کسی اور حلقے میں ووٹ مسترد نہیں ہوئے۔
ایک اور لطیفہ سنیں۔ تلہ گنگ کے گاؤں کوٹ سارنگ سے تعلق رکھنے والے محمد شہبازنے آزاد حیثیت میں این اے 59اور پی پی 23سے الیکشن لڑا۔ کوٹ سارنگ کے پولنگ سٹیشنز کے فارم45 کے مطابق محمدشہباز نے اپنے گاؤں سے 743ووٹ لیے۔ دو تین پولنگ سٹیشنز سے مسلم لیگ ن کے سردار غلام عباس اورپی ٹی آئی کے محمدرومان احمد سے زیادہ ووٹ لیے۔ حلقے کے باقی پولنگ سٹیشنز سے بھی کچھ نہ کچھ ووٹ لیتے رہے۔ لیکن جب آٹھ اور نو فروری کی درمیانی شب کو واردات ڈالی گئی توعلمِ ریاضی کے ماہر چھلاووں نے محمدشہباز کوایک ووٹ بھی نہ دیا۔ حتی کہ ان کو ان کے اپنے ووٹ سے بھی محروم کر دیا۔ ان کے گھر کے افراد کے ووٹ بھی انہیں نہ دیے گئے۔ یہ عجلت اور بوکھلاہٹ میں ڈالی گئی واردات کا شاخسانہ تھا۔ ایک اور لطیفہ شہنشاہِ تعمیرات کے حلقے پی پی 21سے سامنے آیا۔ اس حلقے میں 187508افراد نے ووٹ ڈالا۔ فارم47کے مطابق800ووٹ مسترد کیے گئے۔ لیکن 800مسترد وٹوں کے باوجود درست ووٹوں کی تعداد 187508ہی لکھی گئی۔ اس حلقے کے سارے امیدواروں کے درست ووٹ اگر جمع کیے جائیں تو پھر بھی ووٹوں کی تعداد 187508ہی بنتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ 800مسترد ووٹ مسترد ہو کر بھی مسترد کیوں نہ ہوئے؟ چوری یا کوئی بھی غلط کام کرتے وقت بوکھلاہٹ فطری ہوتی ہے۔
چکوال کے باقی حلقوں سے بھی مسلم لیگ ن کے امیدوار ہارے ہیں اور انہیں اس بات کا ادراک بھی ہے۔ لیکن ان میں جماعت ِ اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن والی اخلاقی جرات نہیں۔بہتر ہوتااگر ذلت و رسوائی کا طوق گلے میں ڈالنے کی بجائے دلیری اور ہمت کا مظاہرہ کیا جاتا اور ہاری ہوئی نشستوں پر نقب لگانے کی بجائے اپنی شکست تسلیم کی جاتی۔کون سا یہ آخری الیکشن تھا کہ اپنی سیاسی زندگی پر ایک ان مٹ داغ لگا لیا گیا۔ اپنی جعلی جیت کا جشن منانے اور اس کے نوٹیفیکیشنز فیس بک پر لگانے سے پہلے تمام پولنگ سٹیشنز کے فارم45سامنے رکھ کر سچے ثابت ہو جاتے نا۔ لیکن ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ ایک جعلی جیت کا جشن منایا جا رہا ہے۔”شکریہ چکوال“ کے بینرز لگانے والے زرا یہ تو بتائیں کہ چکوال والوں نے ان کو کس کس گاؤں سے فتح دلائی ہے؟ چکوال شہر کے شہریوں نے بھی آپ کو مسترد کر دیا ہے۔شکریے کے بینرز ضرور لگائیں لیکن شکریہ ان چھلاووں کا ادا کریں جنہوں نے ہاری ہوئی نشستیں آپ کی جھولی میں ڈالی ہیں۔
کمشنر راولپنڈی لیاقت چٹھہ نے پاکستانی تاریخ کے بد ترین الیکشن میں کی گئی دھاندلی کا اعتراف کر کے ایک بم گرایا ہے۔ لیکن حیف ہے ان لوگوں کے عقلوں پر جو یہ کہہ رہے ہیں کہ کمشنر کا الیکشن یا ووٹوں کی گنتی کے عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کمشنر صاحب 23جنوری کو چکوال ریوڑیاں لینے آئے تھے کیا؟ یہ تو یہ منطق ہوئی کی ڈسرکٹ پولیس افیسر پر ضلع میں ہونے والے جرائم کی کوئی زمہ داری عائد نہیں ہوتی یا ایک باپ کی اپنے گھر کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہوتی؟ کوئی یہ دلیل دے رہا ہے کہ کمشنر صاحب ریٹائرہونے والے تھے تو کوئی یہ راگ الاپ رہا ہے کہ وہ امریکہ کا ویزا جیب میں ڈال کر گھوم رہے ہیں۔ کوئی انہیں ذہنی عارضے میں مبتلاء قرار دے رہا ہے۔ کیا اس کمشنر کو اس بات کا زرا سا بھی ادراک نہیں تھا کہ اگر انہوں نے یہ بم گرا دیا تو ان کی زندگی کی ساری نوکری، اور ریٹائرمنٹ کے فوائد داؤ پر لگ جائیں گے؟ یا وہ اتنے بھولے تھے کہ انہیں یہ خیال نہ آسکا کہ اس دھماکے کے بعد انہیں ملک سے باہر جانے سے روک دیا جائے گا؟ حالت دیکھیں، کمشنر نے الزام الیکشن کمیشن پر لگایا اور اس الزام کی تحقیقات بھی الیکشن کمیشن خود کرے گا۔ کمشنر نے الزام الیکشن کمیشن اور چیف جسٹس پر لگایا جبکہ اس الزام کی تردید مسلم لیگ ن کے شاہسوار کر رہے ہیں۔ ان شاہسواروں کا الیکشن اور ووٹوں کی گنتی کے عمل سے کیا تعلق تھا؟
کمشنر کے اعتراف کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک عدالتی کمیشن بنتاجو ان اعترافات کی جانچ پڑتال کرتا لیکن جس ادارے پر الزام لگا وہ خود ہی اس کی تحقیق کرنے لگا ہے۔
کل آدھی رات کو ایک اور ڈرامہ رچایا گیا۔ راولپنڈی کے قائم مقام کمشنر سیف انور جپہ نے ڈویزن کے تمام ڈی آراوز کو بلا کر ایک پریس کانفرنس کر ڈالی اور لیاقت چھٹہ کے اعترافات کو مسترد کر دیا۔ قائم مقام کمشنر کو کل ہی یہ عہدہ دیا گیا۔ کل تک وہ راولپنڈی ڈویلمنٹ اتھارٹی کے چئیرمین تھے۔ اب بندہ پوچھے کہ جناب آپ کا الیکشن کے عمل سے کیا تعلق تھا جو آپ ایک کمشنر کے اعترافات کو مسترد کر رہے ہیں؟ چکوال کی ڈپٹی کمشنر قرۃ العین ملک (ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افیسر چکوال) اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو خاور بشیر، (ڈسرکٹ ریٹرننگ افیسر تلہ گنگ) نے بھی وہی راگ الاپا۔ لیکن ان کے اترے ہوئے چہروں سے ان کے چہرے نظر آرہے تھے جنہوں نے آدھی رات کو انہیں پنڈی بلا کر پریس کانفرنس کروائی۔ چکوال میں ہونے والے کھلواڑ کو ثابت کرنے کے لیے محض یہ ایک ثبوت ہی کافی ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار ایاز امیر کوآٹھ فروری کی شام آر او آفس سے زبردستی کیوں نکالا گیا؟ فارم 45اگر جعلی تیار کر بھی لیے گئے ہیں تو ان پر پریذائڈنگ افیسرز کے انگوٹھے کیسے لگوائے جائیں گے؟
ہونا کچھ بھی نہیں۔ دائروں کا سفر جاری ہے۔ 2018میں جو مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوا، 2024میں اس سے بڑھ کر پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا۔ اگلی بار اس سے بڑھ کر مسلم لیگ ن کے ساتھ ہوگا۔ دائروں کا یہ سفر چلتا رہے گا اور عوام کی رائے کو اسی طرح بوٹوں تلے روندا جاتا رہے گا۔