کالم

یہ جج کو زیب نہیں دیتا

اپریل 4, 2024 2 min

یہ جج کو زیب نہیں دیتا

Reading Time: 2 minutes

ایک خبر کے باعث سوشل میڈیا کے متعلق ایسی عمومی رائے دینا کسی یوتھیے یا پٹواری کو تو زیب دیتا ہے مگر ایک معزز کہلانے والے سپریم کورٹ کے جج کو نہیں.

جہاں تک ڈالر کمانے کی بات ہے تو لوگ دیگر ذرائع سے پاؤنڈ بھی کماتے ہیں، یورو اور ریال بھی، اِس وجہ سے ان کے کام یا کاروبار کو تضحیک کا نشانہ بنانا درست نہیں۔ خاص کر جب ہماری حکومت ہر سال آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی بھیک مانگ کربیوروکریٹ، ججوں اور جرنیلوں کی تنخواہیں ادا کرتی ہے۔

‏حلال کے چند سو ڈالر حرام کے اُس پاکستانی پندرہ لاکھ روپے ماہانہ سے بہت بہتر ہے جو تقریباً پانچ ہزار ڈالر بنتے ہیں۔

‏کچھ ادارے اور اُن کے ٹاؤٹ پالیسی ساز چند غلط خبروں کو سوشل میڈیا پر خوب اچھالتے ہیں تاکہ چند غصیلے ججوں کو جذباتی کر کے صحافیوں اور سوشل میڈیا کے خلاف بھڑکایا جائے اور صحافیوں کے خلاف بے دریغ اقدامات کا جواز پیدا کیا جا سکے۔

‏غلط اور فیک نیوز کا تدارک ضروری ہے مگر مین سٹریم میڈیا پر جب پورا سچ نہیں بولا جاتا تو پھر پورا سچ سوشل میڈیا سے ہی ملتا ہے اور اور ایسے ہی سچ کو روکنے کے لئیے حکومت کا طفیلیا مین سٹریم میڈیا فیک نیوز کا شور ڈال کر اصل نیوز کو بھی دبانا چا رہا ہے۔

‏عدلیہ کو اِس حکومتی جال میں نہیں آنا چاہیے اور تحمل مزاجی سے صحافیوں کی ہراسیت کے معاملے کو فیک نیوز سے ہٹ کر طے کرنا چاہئیے اور فیک نیوز کے مسئلے کا حل قانون کے نیزوں کی نوک پر نہیں بلکہ کسی یونیورسٹی اور سول سوسائٹی کے مباحثوں میں تلاش کرنا چاہئیے۔

‏نوجوان صحافیوں کو کچھ لوگ غلط خبریں پلانٹ کر کے عدلیہ کو آزاد صحافت اور آزادئی رائے کے بنیادی حق سے متنفر کر رہے ہیں تاکہ میڈیا کی آزادی متعلق کچھ خاص معاملات میں سپریم کورٹ کو بڑے فیصلوں سے باز رکھا جائے۔

‏کچھ ریاستی ادارے اور اُن کے ٹرالز کامیابی سے میڈیا کی انفرادی طور پر جاری کرد کچھ غلط خبروں کو اچھال کر حکومتی پالیسی اور عدالتی فیصلہ سازوں کو سوشل میڈیا پر زِچ کرتے ہیں، انہیں غصہ دلاتے ہیں اور یوں اُنہیں میڈیا کیخلاف فیصلوں پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہی۔

‏جنگ کے دوران حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہُ کافر کے سینے پر بیٹھے تلوار کا آخری وار کرنے لگے تو کافر نے اُنکے کے چہرہ مبارک پر۔—- اپنے منہ کی غلاضت پھینک دی جس پر حضرت علی غصے میں آ گئے اور انہوں نے اُسکی جان بخشی کر دی کہ اب یہ وار جہاد نہیں ذاتی جنگ بن جائیگی۔ ججوں کو بھی اپنا حلف پڑھنا چاہئیے اور انصاف کے منبر پر بیٹھ کر کسی فریق کے ظلم کا خود نشانہ بننے کی مثال دینا کسی جج کے لیے ھر گز مناسب نہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے