عالمی خبریں

بنگلہ دیشی وزیراعظم نے حامیوں کو مظاہرین سے لڑا دیا، 100 ہلاک

اگست 5, 2024 3 min

بنگلہ دیشی وزیراعظم نے حامیوں کو مظاہرین سے لڑا دیا، 100 ہلاک

Reading Time: 3 minutes

بنگلہ دیشں میں وزیراعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے ہزاروں مظاہرین کی حکومت کے حامی ہجوم کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں جن میں 100 کے قریب افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بنگالی زبان میں شائع ہونے والے اخبار روزنامہ ’پروتھم الو‘ نے بتایا کہ جھڑپوں میں 14 پولیس افسران سمیت 95 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ چینل 24 نیوز آؤٹ لیٹ نے 85 اموات رپورٹ کی ہیں۔

فوج نے اتوار کی شام دارالحکومت ڈھاکہ سمیت ملک کے بڑے شہروں میں غیر معینہ مدت کے لیے ایک نیا کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کیا۔

مظاہرین وزیراعظم شیخ حسینہ واجد سے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کے بعد گزشتہ ماہ شروع ہونے والے مظاہروں کا آغاز طالب علموں نے سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمے کے لیے کیا تھا۔ یہ مظاہرے تشدد کی شکل اختیار کر گئے جس میں 200 سے زیادہ لوگ مارے گئے۔

جب نئے سرے سے تشدد برپا ہوا، حسینہ نے کہا کہ "تخریب کاری” اور تباہی میں مصروف مظاہرین اب طالب علم نہیں بلکہ مجرم ہیں، اور انہوں نے کہا کہ لوگوں کو ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔

مظاہرین وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ وزیراعظم ان پر ’تخریب کاری‘ کا الزام لگا رہی ہیں۔

حکومت نے بدامنی پر قابو پانے کے لیے موبائل فون سروس اور انٹرنیٹ بند کر دیا ہے اور واٹس ایپ سمیت فیس بک اور میسجنگ ایپس تک رسائی ممکن نہیں۔

جونیئر وزیر برائے اطلاعات و نشریات محمد علی عرفات نے اتوار کو کہا کہ تشدد کی روک تھام میں مدد کے لیے مختلف خدمات کی فراہمی بند کر دی گئی ہے۔

حکومت نے پیر سے بدھ تک چھٹیوں کا اعلان کیا ہے جبکہ عدالتیں غیر معینہ مدت کے لیے بند رہیں گی۔

گذشتہ ماہ طلبہ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبے پر مبنی احتجاج شروع کیا تھا جو بعد میں پرتشدد مظاہروں میں بدل گیا اور اب تک 200 سے زیادہ اموات کا سبب بنا۔

تشدد کی تازہ لہر کے دوران شیخ حسینہ نے کہا کہ ’تخریب کاری‘ اور تباہی میں ملوث مظاہرین اب طالب علم نہیں بلکہ مجرم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے۔

حکمراں جماعت عوامی لیگ کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کے استعفے کا مطالبہ ظاہر کرتا ہے کہ ان مظاہروں پر مرکزی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی اور اب کالعدم جماعت اسلامی نے قبضہ جما لیا ہے۔

ڈھاکہ کے علاقے اترا میں پولیس نے سینکڑوں لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کی جنہوں نے اہم شاہراہ کو بند کر دیا تھا۔

مظاہرین نے گھروں پر حملہ کیا اور علاقے میں کمیونٹی ویلفیئر کے دفتر میں توڑ پھوڑ کی، جہاں حکمراں جماعت کے سینکڑوں کارکنوں نے پوزیشنیں سنبھال لیں۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دیسی ساختہ بموں کے چند دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں سنی گئیں۔ مشرقی علاقے میں 20 افراد گولیوں کا نشانہ بنے۔

شمال مغربی ضلع سراج گنج میں کم از کم 18 افراد ہلاک ہوئے۔ ڈھاکہ میں پولیس ہیڈ کوارٹرز کے مطابق اس تعداد میں 13 پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جو مظاہرین کے تھانے پر حملے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پولیس نے بتایا کہ مشرقی ضلع کومیلا میں ایک اور افسر جان سے گیا۔ جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے ضلع فینی میں حسینہ واجد کے حامیوں اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں پانچ افراد کی موت ہوئی۔

بنگلہ دیش میں حالیہ ہفتوں میں کم از کم 11 ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ بدامنی کے نتیجے میں ملک بھر میں سکول اور یونیورسٹیاں بھی بند کر دی گئیں جبکہ حکام نے ایک موقعے پر کرفیو نافذ کرتے ہوئے دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دیا۔

مظاہرین نے لوگوں سے حکومت کے ساتھ ’عدم تعاون‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے لوگوں پر زور دیا تھا کہ وہ ٹیکس یا یوٹیلیٹی بل ادا نہ کریں اور اتوار کو کام پر نہ آئیں جو بنگلہ دیش میں کام کا دن ہوتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے