صدر بشار الاسد دمشق سے فرار، سرکاری فوج بھی بھاگ گئی
Reading Time: 2 minutesمشرق وسطیٰ میں ایرانی حکومت کو اُس وقت بڑا دھچکہ لگا جب اتوار کی صبح شام کے صدر بشار الاسد دارالحکومت دمشق سے فرار ہو گئے اور اُن کی فوج نے بڑے پیمانے پر مزاحمت کے بغیر اپوزیشن کی ملیشیا کو شہر میں داخل ہونے دیا۔
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز نے سینیئر فوجی افسران کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ شام کے صدر بشار الاسد طیارے میں سوار ہو کر دمشق سے روانہ ہو گئے ہیں۔
روئٹرز کے مطابق شام کے عسکریت پسندوں نے دارالحکومت میں داخل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کے بعد دو سینئر فوجی افسران نے بتایا ہے کہ ’صدر بشار الاسد دمشق چھوڑ گئے ہیں۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ ہزاروں گاڑیوں میں سوار اور پیدل چلنے والے افراد دمشق کے ایک مرکزی چوک پر جمع ہوئے اور ’آزادی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
فلائٹ ریڈار کے مطابق شام کی فضائی کمپنی سیرین ایئر کے طیارے نے دمشق کے ہوائی اڈے سے اس وقت اُڑان بھری جب دارالحکومت کو باغیوں کے قبضے میں لینے کی خبر سامنے آئی۔
فلائٹ ریڈار کے مطابق طیارے نے شام کے ساحلی علاقے کی جانب اُڑان بھری جو بشار الاسد کے علوی فرقے کا گڑھ ہے تاہم، پھر اچانک یو ٹرن لیا اور نقشے سے غائب ہونے سے پہلے چند منٹوں کے لیے مخالف سمت میں پرواز کی۔
روئٹرز فوری طور پر یہ معلوم نہیں کر سکا کہ جہاز میں کون سوار تھا۔
وسطی شہر سے فوج کے انخلاء کے بعد حمص کے ہزاروں شہری سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ رقص کرتے ہوئے نعرے لگا رہے تھے کہ ’اسد چلا گیا، حمص آزاد ہے۔‘
شام میں عسکریت پسندوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ دارالحکومت دمشق میں داخل ہو گئے ہیں اور انہیں وہاں کوئی فوجی اہلکار نظر نہیں آیا۔
عسکریت پسندوں نے اتوار کو ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ہم شام کے عوام کو اپنے قیدیوں کی رہائی اور زنجیروں سے آزادی اور سیڈنایا جیل میں ناانصافی کے دور کے خاتمے کی خوش خبری دیتے ہیں۔‘
سیدنایا دمشق کے مضافات میں ایک بڑی فوجی جیل ہے جہاں شامی حکومت نے ہزاروں افراد کو زیرِحراست رکھا ہوا تھا۔
شام کے عسکریت پسندوں نے اعلان کیا کہ انہوں نے صرف ایک دن کی لڑائی کے بعد اتوار کے اوائل میں اہم شہر حمص پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔
اتوار کو دو رہائشیوں نے بتایا کہ دمشق کے وسط میں فائرنگ کی شدید آوازیں سُنی گئیں۔
عسکریت پسندوں کا کہنا ہے کہ وہ شامی صدر بشار الاسد کے اقتدار کے مرکز کی جانب پیش قدمی کر رہے ہیں۔