مودی سرکار نے پاکستانی فوج کو فائدہ پہنچایا اور مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کیا: تجزیہ کار
امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی ہو چکی ہے مگر میڈیا اور سوشل میڈیا پر جنگی جنون اور ہیجان بھی کم ہو رہا ہے۔
اس دوران پڑھے لکھے اور سوچ سمجھ والے تجزیہ کار صورتحال کے مختلف زاویوں پر گفتگو کر رہے ہیں۔
بیجنگ میں مقیم پاکستانی سکالر و تجزیہ کار فاطمہ تصدق نے ایکس پر لکھا کہ:
”پاکستان کی اندرونی سیاست پر آپریشن سندور کے نتائج کے بارے میں سوچنا انتہائی پریشان کن اور مایوس کر دینے والی بات ہے۔“
فاطمہ تصدق کے مطابق پاکستان میں فوج کی مطلق حاکمیت کی قانونی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ مگر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے تحفے نے انہیں معاشرے میں ایک ایسی واپسی کی راہ دے دی جس کی وہ اپنے خوابوں میں بھی توقع نہیں کر سکتے تھے۔“
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ اب بلوچوں کو دبانے اور اُن کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوگا۔ شہری آزادیوں میں جو بھی باقی رہ گیا ہے اسے ختم کر دیا جائے گا۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کو ٹرائل کرنا اس وقت تک اچھا نظر آئے گا جب تک حافظ صاحب ہمارے ساتھ ہوں گے۔ دفاع اور دفاع سے منسلک اخراجات فطری طور پر اپنی تمام صورتوں میں بڑھیں گے اور ہر دوسرے شعبے کو مزید کمزور کر دیں گے۔ ڈی ایچ اے نے پھل پھول کے چاند تک جا پہنچنا ہے۔“
فاطمہ تصدق نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا کہ ”اور جوسب سے برا ہو گا، وہ جہادی نیٹ ورکس اور انفراسٹرکچر کے لیے فنڈنگ اور سپورٹ میں بحالی ہو سکتی ہے۔“
دوسری جانب انڈیا کے تجزیہ کار اور دی وائر میڈیا پلیٹ فارم کے بانی ایڈیٹر سدہارتھ نے لکھا کہ:
”مودی سرکار کو خوش فہمی ہے کہ وہ صورتحال یا حقائق کو اپنی پسند کے مطابق موڑ کر پیش کرے گی – یعنی یہ پاکستانی ہی ہیں جو ‘ہمیں بچاؤ’ کہتے ہوئے امریکہ کی طرف جنگ بندی کے لیے بھاگے، اور یہ کہ انڈیا نے وہ سب کچھ حاصل کیا جس کا اس نے ارادہ کیا تھا- لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی نے کچھ ایسا کیا جس کا ایک ناخوشگوار لیکن کافی حد تک متوقع نتیجہ نکلا۔“
اُن کا کہنا تھا کہ ”پاکستان اب یقین کرتا ہے کہ جموں و کشمیر ایک بین الاقوامی مسئلے کے طور پر دوبارہ کھیل میں آ گیا ہے اور امریکہ بھی یہ کہہ رہا ہے۔ انڈیا کو فوجی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کا درست تخمینہ بتانے سے وہ گریزاں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے "مخالف کا فائدہ” ہوگا – ان کے لیے یہ اعتراف کرنا مشکل ہے کہ یہ نقصانات غیرمعمولی ہیں۔“
سدھارتھ کے مطابق ”آر ڈبلیو کے جوش پسند مودی سے ناراض ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ حکمران میں اپنے وعدے کے مطابق فوجی حل پر عمل کرنے کی ہمت نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ مودی یہ سب جانتے تھے کہ مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں۔ اس نے اپنے سیاسی حساب سے، لاپرواہی سے ایک خطرناک، ‘بالاکوٹ سے نو گنا زیادہ’ کا راستہ اختیار کیا اور اس امید پر کہ اس کے نتائج کو آسانی سے سنبھالا جا سکتا ہے۔ لیکن واقعات نے مودی کو غلط ثابت کیا۔“