متفرق خبریں

لاپتہ کیس میں عدالت اور حکومت

مارچ 26, 2018 2 min

لاپتہ کیس میں عدالت اور حکومت

Reading Time: 2 minutes

سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس کی سماعت کے دوران حبس بے جا میں موجود افراد کے لیے ریاست کے روہے پر سوال اٹھایا ہے ۔ جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فوج کے حراستی مراکز میں موجود اور دیگر دس لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کی ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق عدالت میں فوج کے حراستی مراکز میں موجود افراد کی رپورٹ پیش کی گئی اور نہ ہی ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی عدالت آئے ۔ جسٹس اعجاز افضل نے اس پر مایوسی کا اظہار کیا ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت سے معذرت کی تاہم جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالتوں میں حبس بے جا کی درخواستیں اہم سمجھی جاتی ہیں اور ان کو ترجیح دی جانی چاہئے، یہاں معلوم ہوا کہ ریاست اس کو کیسے دیکھتی ہے ۔

جسٹس اعجاز افضل نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی کے پیش نہ ہونے پر برہمی کا اظہار کیا ۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسا نہیں ہے، مجھے دو دن کا وقت دے دیں، رپورٹ پیش کر دیں گے ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق عدالت میں درخواست گزار آمنہ مسعود نے کہا کہ ہدایت کے باوجود جواب نہیں دیا جاتا اور لاپتہ کے رشتہ داروں کو سہولت فراہم نہیں کی جاتی ۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم حکومت کے جواب کا انتظار کریں گے، ان کا جواب آنے دیں، اگر نہیں آیا تو پھر دیکھیں گے اور قانون کے مطابق حکم جاری کریں گے ۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھا کہ ڈپٹی اٹارنی ساجد الیاس عدالت کو بتائے بغیر بیرون ملک چلے گئے، ان کی جگہ وفاق کا کوئی وکیل پیش نہ ہوا ۔ عدالت نے کیس کی سماعت 28 مارچ تک ملتوی کر دی ۔

واضح رہے کہ گزشتہ تین سال سے عدالت نے لکی مروت، کوہاٹ اور قبائلی علاقوں میں قائم فوج کے حراستی مراکز میں قید افراد کی تفصیلات طلب کر رکھی ہیں ۔ گزشتہ سماعت پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے تفصیلات فراہم کرنے کیلئے مہلت طب کی تھی لیکن آج عدالت کو بتایا گیا کہ وہ چھٹیوں پر ملک سے باہر چلے گئے ہیں ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے