ٹی وی پر فحاشی کیس ختم
Reading Time: 2 minutesمیڈیا پر فحش مواد نشر کرنے کے خلاف جماعت اسلامی کے مرحوم امیر قاضی حسین احمد کی درخواست کی سماعت عدالت عظمی کے تین رکنی بنچ نے کی ۔
ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کہ مرحوم قاضی احمد نے میڈیا پر فحاشی روکنے کیلئے درخواست دائر کی، قاضی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے ورثا کیس کی پیروی کرنا چاہتے ہیں ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وی چینل پر فحاشی نہیں ہونی چاہیے، کسی ٹی وی چینل پر ڈانس کا نوٹس لیا تھا، نوٹس لینے پر پیمرا نے کارروئی کی، بہتر ہوگا پیمرا اس معاملے پر پہلے خود کچھ کرے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فحاشی کی کوئی حتمی تعریف نہیں دے سکتا، فحاشی کے حوالے سے عدلیہ تو لغت کی تعریف پر اکتفا کرتی ہے ۔
ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے کہا کہ بی بی سی، سی این این پر محدب عدسہ لگا کر دیکھیں تو کوئی فحاشی نظر نہیں آئے گی ۔ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے پوچھا کہ پیمرا کے قانون میں قابل اعتراض مواد نشر کرنے کی سزا کیا ہے؟ ۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ٹی وی چینل بچے بھی دیکھتے ہیں، بعض اوقات ٹی وی چینل دیکھتے ہوئے قابل اعتراض مناظر پر بچوں کے سامنے شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ بظاہر یہ بڑا ایشو ہے، یوٹیوب کے مواد کو روک نہیں سکتے، ٹی وی چینلز کو پیمرا نے ریگولیٹ کرنا ہے، پیمرا سے رپورٹ مانگ لیتے ہیں، قابل اعتراض مواد پر کیا کیا؟ پاکستان ۲۴ کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ پیمرا کے ہاس اختیار ہے، کسی کو شکایت ہے تو پیمرا سے رجوع کرے، ٹی وی چینلز قابل اعتراض مواد پر ایکشن نہ لے تو متعلقہ فورم موجود ہیں، یہ حکم دیا جا سکتا ہے کہ پیمرا قابل اعتراض مواد کو نشر نہ ہونے دے، ہمارے ٹی وی چینلز پر عریانی اور فحاشی والا مواد نہیں ہونا چاہیے، اس بات پر کوئی دو رائے نہیں ۔
پاکستان ۲۴ کے مطابق عدالت نے حکم نامے میں لکھا کہ قابل اعتراض مواد کی ٹی وی چینلز پر کسی صورت اجازت نہیں ہے، پیمرا ٹی وی پر نشر ہونے والے مواد پر نظر رکھے، اگر ٹی وی چینلز پر قابل اعتراض مواد ہوتا ہے تو پیمرا نوٹس لے، قابل اعتراض مواد پر پیمرا ایکشن نہ لے تو عام آدمی درخواست دے سکتا ہے، عام ادمی کی درخواست پر پیمرا فیصلہ کرے ۔
سپریم کورٹ نے میڈیا پر فخش مواد کیس نمٹا دیا ۔