فوجی افسر کا اثاثے چھپانا غلط نہیں
Reading Time: 2 minutesسپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کسی فوجی افسر کا اثاثے ظاہر نہ کرنے پر کورٹ مارشل نہیں کیا جا سکتا _ چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے نظرثانی درخواست پر فیصلہ سنایا ہے _
کرنل منیر پر 1999 میں اثاثے ظاہر نہ کرنے پر فرد جرم عائد کی گئی تھی اور فوجی عدالت نے کورٹ مارشل کرتے ہوئے نوکری سے برخاست کر دیا تھا _
پاکستان 24 کے مطابق کرنل منیر نے فوجی عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، عدالت نے فوجی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کرنل کو تمام مراعات اور پنشن فوائد کے ساتھ بحال کیا _
ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی گئی جس میں اسی فیصلے کو برقرار رکھا گیا، تاہم عدالتی فیصلے پر نظرثانی اپیل دائر کی گئی جس میں سرکاری وکیل ساجد الیاس نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فوجی افسر کے لیے مالی امور میں شفاف ہونا لازم ہے ،اور اثاثے چھپانا بددیانتی ہے _
پاکستان 24 کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ فوجی افسر کے لیے اثاثے ظاہر کرنا قانون میں لازمی نہیں، اثاثوں کے بارے میں درست معلومات فراہم نہ کرنے پر بھی کورٹ مارشل نہیں کیا جاسکتا بلکہ وفاقی ریونیو بورڈ ایف بی آر قانون کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے –
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کسی غیر متعلقہ ادارے کے سامنے دیے گئے بیان کو بھی مس کنڈکٹ قرار نہیں دیا جا سکتا _ سرکاری وکیل نے کہا کہ فوجی افسر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے کنڈکٹ میں سچا اور دیانت دار ہو _
پاکستان 24 کے مطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ فوجی عدالت کے پاس اثاثے ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر کسی افسر کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں _ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق کرنل منیر کی تمام پنشن اور مراعات بحال رکھنے کا فیصلہ دیتے ہوئے اپیل خارج کر دی گئی _