پاکستان کو اکتوبر تک وارننگ
Reading Time: 2 minutesعالمی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی میں استعمال ہونے والے سرمائے کی روک تھام کے بین الاقوامی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو خبردار کیا ہے کہ اکتوبر تک دیے گئے لائحہ عمل کے مطابق کارروائی نہ کی گئی تو اگلا اقدام کیا جائے گا۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی جانب سے مقررہ مدت میں ایکشن پلان پر عمل درآمد نہ کرنے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔
تجزیہ کار مشرف زیدی کے مطابق ایف اے ٹی ایف کے جاری کیے گئے بیان کی زبان کافی سخت ہے اور پاکستانی حکام کو پریشان ہونا چاہیے۔
بیان میں کہا گیا ہے پاکستان نہ صرف جنوری 2019 کے مقررہ اہداف کے حصول میں ناکام رہا ہے بلکہ مئی 2019 کے اہداف کو بھی مکمل نہیں کر پایا ہے۔
ادارے نے پاکستان پر زور دیا کہ جلد از جلد اکتوبر کے اہداف کو مکمل کرے ورنہ ایف اے ٹی ایف اگلے اقدام کا فیصلہ کرے گا۔
امریکہ میں جاری اجلاس کے بعد جاری کیے گئے اعلامیے پر اسلام آباد میں حکومتی شخصیات نے اطمینان کا سانس لیا ہے مگر ماہرین کہتے ہیں کہ ابھی پاکستان کے لیے بلیک لسٹ ہونے کا خطرہ برقرار ہے۔
بیان میں ایف اے ٹی ایف نے یہ نہیں بتایا کہ اکتوبر کے بعد مطلوبہ کارکردگی میں ناکامی پر پاکستان کے خلاف اگلا اقدام کیا ہو سکتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گذشتہ دنوں لندن میں میڈیا کو بتایا تھا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی ہدایات کے مطابق اقدامات کر رہا ہے۔ وزیرخارجہ نے الزام عائد کیا تھا کہ انڈیا پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کے ارکان پر اپنا اثر رسوخ استعمال کر رہا ہے۔
دفتر خارجہ کے ذرائع نے کہا ہے کہ پاکستان نے ترکی، چین اور ملائشیا کی مدد سے ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ کے خطرے کو ٹالا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے چارٹر کے مطابق بلیک لسٹنگ سے بچنے کے لیے ایک ملک کو کم از کم تین ممبر ممالک کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے کل چھتیس ممبر ممالک ہیں۔
ایف اے ٹی ایف کے مطابق گزشتہ سال جون سے اب تک منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کے لیے سرمایے کی روک تھام کے لیے چند اقدامات کیے ہیں تاہم اسے ابھی تک بین الاقوامی دہشت گردی کی سرمایہ کاری کے خطرے کا مکمل ادراک نہیں ہے۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے دس نکات بھی پیش کیے ہیں۔
پاکستان کو گذشتہ سال جون میں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا جس کی وجہ سے ملک کو بیرونی سرمایہ کاری کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔