طالب علم گرفتار، دہشت گردی کا مقدمہ
Reading Time: 3 minutesپاکستان کے قبائلی اضلاع شمالی و جنوبی وزیرستان میں علاقے کے منتخب رہنماؤں علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج جاری ہے جس کی میڈیا میں کوریج کی اجازت نہیں تاہم اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو گرفتار کر کے ان پر دہشت گردی کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔
شمالی و جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہروں میران شاہ اور وانا میں حالیہ مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی ہے جس کے بعد گرفتاریوں اور مقدمات کے اندراج میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
مقامی افراد نے جیل بھرو تحریک بھی شروع کی جس دوران لیویز اہلکاروں نے کینٹ کے سامنے دھرنا دینے والے درجنوں افراد پر تشدد کیا اور ان کو گرفتار کر کے ڈیرہ اسماعیل خان جیل منتقل کیا گیا۔
گرفتاری کے وقت مظاہرین پر تشدد کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں وہ لیویز کی گاڑی کے قریب سے گزرتے ہوئے دوںوں ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ لیویز اہلکار گاڑی سے اتر کر احتجاج کرنے والوں پر تشدد کر رہے ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے مرکزی شہر وانا میں ہونے والے اس مظاہرے کے شرکا کو گرفتار کرنے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان جیل منتقل کیا گیا اور ایک دن بعد 30 افراد پر دہشت گردی کے مقدمے کا اندراج ہوا۔
اس مقدمے کی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ احتجاج کرنے والے افراد فوج کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔
انسداد دہشت گردی کی دفعہ سات اے ٹی اے کے تحت درج مقدمے میں گرفتار ہونے والوں میں قائداعظم یونیورسٹی سے حال ہی میں ایم فل کرنے والے طالب علم جمشید خان بھی شامل ہیں۔
جمشید خان کے بھائی محمد الیاس نے پاکستان ٹوئنٹی فور کو بتایا کہ جمشید ایم فل کے بعد پی ایچ ڈی کے لیے داخلہ لے رہے تھے کہ یہ واقعہ پیش آیا۔
محمد الیاس کا کہنا تھا کہ مظاہرین کو دفعہ 144 توڑنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا مگر بعد میں دہشت گردی کی دفعات لگائی گئیں تاکہ ضمانت نہ ہو سکے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ جمشید خان اور دیگر زیر حراست افراد پر تشدد کیا گیا ہے۔
جمشید خان کو ڈیرہ اسماعیل خان کی عدالت میں پیش کرکے دو دن کا جسمانی ریمانڈ حاصل کیا گیا۔
محمد الیاس نے بتایا کہ جس وقت ان کے بھائی کو گرفتار کر کے دیگر افراد کے ہمراہ ڈیرہ اسماعیل خان منتقل کیا جا رہا تھا وہ ایک فون نمبر کے ذریعے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے اور کہا کہ گرفتاری کے وقت ان پر تشدد کیا گیا۔
محمد الیاس کے مطابق ان کے والد فوت ہوچکے ہیں اور انہوں نے خود حال ہی میں ایم بی بی ایس مکمل کیا۔ ’گھر پر اہل خانہ کے ساتھ رہنے والے چھوٹے بھائی کی یونیورسٹی کی کلاسز عید کے بعد شروع ہوں گی جس کی وجہ سے ان کو مشکلات ہو سکتی ہیں۔‘
محمد الیاس نے بتایا کہ جمشید خان گھر میں سب سے بڑے ہیں اور ان کے جیل جانے سے فیملی کو پریشانی کا سامنا ہے۔ محمد الیاس نے کہا کہ احتجاج شہریوں کا بنیادی حق ہے جس پر دہشت گردی کے مقدمات کا اندراج اور تشدد ریاستی جبر کی بدترین مثال ہے۔
انہوں نے اعلی عدلیہ سے مطالبہ کیا کہ وزیرستان کی صورتحال پر ازخود نوٹس لے کر فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔