’سات لاکھ روہنگیا کی دربدری کے دو سال‘
Reading Time: 2 minutesاقوام متحدہ کی جانب سے دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیے گئے میانمار برما کے ساڑھے سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں کی دربدری کے دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔
اتوار کو میانمار کی سرحد کے قریب واقع بنگلہ دیش کے پناہ گزین کیمپوں میں موجود دو لاکھ سے زائد روہنگیا مسلمانوں نے ایک ریلی نکالی جس میں اپنے حقوق اور میانمار حکومت کے خلاف نعرے لگائے گئے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق روہنگیا وہ کمیونٹی ہے جس کو اکیسویں صدی میں نسل کشی کا سامنا کرنا پڑا۔
میانمار میں فوج پر روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے الزام عالمی تنظیموں نے ثبوتوں کے ساتھ عائد کیے تاہم دو سال گزرنے کے باوجود اقوام متحدہ، اسلامی ممالک کے اتحاد یا پڑوسی ممالک نے اس کمیونٹی کے لیے وہاں کی حکومت پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔
میانمار برما کے مقامی بدھ بھکشوؤں کے مسلح جتھوں کی روہنگیا مسلمانوں کے گھر جلانے اور قتل عام کی ویڈیوز بھی تمام تر پابندیوں کے باجود دنیا تک پہنچیں اور رخائن صوبے میں اس کمیونٹی کی نسل کشی میں فوج کے ملوث ہونے کی بھی عالمی اداروں نے تحقیقات کیں۔
میانمار میں جمہوریت کی جدوجہد پر نوبل انعام پانے والی خاتون سیاست دان آنگ سان سوچی نے فوجی جرنیلوں کے ساتھ شراکت اقتدار کرنے کے بعد روہنگیا مسلمان اقلیت کے حق میں آواز نہ اٹھائی جس پر ان کو سخت تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
انسانی حقوق کی تنظمیوں کے مطابق اس وقت بھی برما کے کئی علاقوں میں ہزاروں روہنگیا افراد پر زندگی مشکل بنا دی گئی ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کے مطابق سات لاکھ چالیس ہزار روہنگیا مسلمانوں نے دو سال قبل برما میں نسل کشی کے خطرے کی وجہ سے ہجرت کی جن میں سے دو لاکھ بنگلہ دیش میں پناہ گزین بن گئے تاہم مقامی آبادی کی جانب سے ان کو مخاصمت کا سامنا ہے۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا کے کیمپوں کی بدترین حالت ہے اور وہاں بنیادی انسانی سہولتیں میسر نہیں۔
پناہ گزین روہنگیا مسلمانوں کے مطابق دنیا میں صرف ترک حکومت اور وہاں کے مسلمانوں نے ان کی مدد کی ہے۔