جسٹس گلزار احمد اور شبر زیدی کا مکالمہ
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا ہے کہ ٹیکس اکھٹے کرنے والے وفاقی ادارے ایف بی آر کا حال بہت خراب ہے۔
عدالت نے کراچی میں جعلی کمپنیوں کے ذریعے نو کروڑ روپے ٹیکس ریفنڈ کے مقدمے میں ملوث ایف بی آر دو افسران کے بارے میں چیئرمین سے تین ماہ میں رپورٹ طلب کی ہے۔
ایف بی آر کے چیئرمین نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے میں تین ملزمان ہیں جبکہ ڈاکٹر اشفاق تنیو کے خلاف انکوائری کی سمری وزیراعظم کو بھجوا دی ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ہدایت کی کہ دو ہفتوں میں اس کی رپورٹ جمع کرائیں جس پر ایف بی آر کے چیئرمین نے کہا کہ دو ہفتوں میں مشکل ہے، زیادہ مہلت دی جائے تاہم عدالت نے چیئرمین ایف بی آر کو مزید وقت دینے کی درخواست مسترد کر دی۔
چیئرمین نے بتایا کہ منیر اللہ بھی ملزم ہے جبکہ سروس ٹرائبیونل نے عبدالحمید انجم کو نوجری پر بحال کر دیا تھا۔
جسٹس گلزار احمد نے چیئرمین ایف بی آر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ 9 کروڑ روپے کا معاملہ ہے، قومی خزانے سے نو کروڑ روپے چلے گئے اور کسی کو خبر نہیں۔
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ایک سکیم نہیں لاکھوں سکیمز میں ایسا ہو رہا ہے۔ حکومت جتنا ریونیو کما رہی ہے دوسری طرف سکیمز کی صورت میں جا رہا ہے اور ایف بی آر اپنے ملازمین کو بچا رہا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پبلک سروس کے لوگ کیا کر رہے ہیں، سارا دن یا تو آفس میں فائدے کے لیے بیٹھتے ہیں یا اپنے لوگوں کو بچاتے ہیں، ایف بی آر کا تو حال بہت خراب ہو گیا ہے۔
جسٹس گلزار احمد کے پوچھنے پر کہ ایف بی آر میں کتنے ملازمین ہیں؟ چیئرمین نے بتایا کہ اکیس ہزار پانچ سو ملازمین ہیں۔
جسٹس گلزار نے کہا کہ ایف بی آر تو اپنے ملازمین کی تنخواہوں جتنی ریکوری بھی نہیں کرتا ہو گا، اس کیس میں آخر نو کروڑ کس کی جیب میں گئے معلوم ہونا چاہیے۔
چیئرمین نے کہا کہ انکوائری ٹیم بنا دیتے ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ قانون میں لکھا ہوا ہے ریکوری بھی کریں اور پانچ سال سزا بھی دیں، صرف نوکری سے نکال دینا ہی حل نہیں ہے۔
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔