جسٹس فائز کیس: درخواست دہندہ ’صحافی‘ کی اصلیت
Reading Time: 4 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواستوں کی سماعت جاری ہے جہاں ان کے وکیل نے صدارتی ریفرنس کی بنیاد بننے والے ’صحافی‘ کی اصلیت دس رکنی لاجر بینچ کے سامنے کھول کر بیان کی ہے۔
وکیل منیر اے ملک نے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی بینچ کو اپنے دلائل میں بتایا کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے پر تحریک انصاف، وزارت دفاع اور ایم کیو ایم نے نظر ثانی درخواستیں مارچ میں دائر کیں جبکہ دس اپریل 2019 کو ایسٹ ریکوری یونٹ کو ایک صحافی نے جسٹس قاضی فائز کے بارے میں خط لکھا۔
منیر اے ملک نے صحافی عبد الوحید ڈوگر کا ایسٹ ریکوری یونٹ کو لکھا گیا خط پڑھ کر سنایا اور کہا کہ صحافی کے خط میں قاضی فائز عیسیٰ کی کسی بھی جائیداد کا ذکر نہیں کیا گیا۔
وکیل نے کہا کہ اس خط پر فون نمبر اور پتا درج نہیں ہے۔ دس مئی کو وزیر قانون کو ایک خط لکھا گیا جس میں ان سے موقف مانگا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کیا ہے یہ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کیوں ہے۔؟
منیر اے ملک نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز کی فیملی یعنی پہلی بار ذرینہ کھوسو کریرہ اور ارسلان کھوسو کے نام سامنے آئے۔ وحید ڈوگر نے لندن کی جائیداد کے بارے میں آن لائن سرچ کر کے دستاویز سامنے لانے کا دعویٰ کیا۔ ’وحید ڈوگر نے الزام لگایا کہ قاضی فائز عیسیٰ کی جائیداد لندن میں ہے، جو انہوں نے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کی۔‘
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ خود کو تحقیقاتی صحافی کہنے والے نے درخواست پر ’عیسیٰ‘ کے ہجے بھی غلط لکھے ہیں۔ صحافی کا دعوی ہے کہ اس نے لندن کے مکان کی تفصیل آن لائن سرچ سے ڈھونڈی۔
وکیل نے کہا کہ ’وحید ڈوگر نے جسٹس کے کے آغا کی جائیداد سے متعلق بھی معلومات دیں۔ وحید ڈوگر نے یہ بھی ایسٹ ریکوری یونٹ کو بتایا کہ جسٹس کے کے آغا کے پاس دوہری شہریت ہے، لیکن کوئی دستاویزی ثبوت نہیں دیے۔‘
وکیل منیر اے ملک کے مطابق ایسٹ ریکوری یونٹ نے کہا ہے کہ وحید ڈوگر نے لندن لینڈ ڈیپارٹمنٹ کی ایک کاپی فراہم کی ہے۔ 8 مئی کو ایسٹ ریکوری یونٹ نے ایک خط لکھا جس میں جج کی جائیداد کی بارے میں ذکر ہے۔ دس مئی کو ایف آئی اے کی ایسٹ ریکوری یونٹ والوں سے میٹنگ ہوئی۔
مینر اے ملک نے کہا کہ اس میٹنگ میں جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کا نام اور سپین کی شہریت کا معاملہ سامنے لایا گیا۔ جسٹس عمر عطا نے کہا کہ سپین کے ویزا درخواست کی وجہ سے نام سامنے آیا۔ جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ کو پانچ سال کا ویزہ دیا گیا۔
وکیل منیر ملک نے پوچھا کہ سوال یہ ہے کہ پراکسی درخواست گزار وحید ڈوگر کو جسٹس قاضی کی اہلیہ کا نام کیسے معلوم ہوا۔ دراصل شکایت کنندہ پراکسی کمپلینٹ ہے اور اس نے کسی کے اشارے پر شکایت درج کی۔
’وحید ڈوگر کو یہ کس نے بتایا کہ جسٹس فائز کی اہلیہ کے انگریزی نام کے ہسپانوی ہجے کیا ہیں۔ ہو سکتا ہے اس کے پاس سپر نیچرل پاورز ہوں۔ ڈوگر کو ایک جج کی ویلتھ سٹیٹمنٹ کا کیسے اور کہاں سے پتہ چلا۔‘
وکیل نے کہا کہ فیض آباد دھرنا کیس کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف مواد اکٹھا کیا گیا۔
منیر اے ملک نے سوال اٹھایا کہ جس طرح جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف تحقیقات کی گئیں کیا ایسا ہونا چاہیے۔ اگر اس طرح ججوں کیخلاف تحقیقات ہوتی رہیں تو پھر آرٹیکل 209 کدھر جائے گا۔ کل کسی تھانے کا ایس ایچ او سپریم کورٹ کے جج کے خلاف تحقیقات شروع کر دے گا۔
وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ کیا جج کو بلیک میل کرنے کیلئے اس طرح خفیہ تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ جج کے خلاف تحقیقات کے دو راستے ہیں۔ صدر پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کے ذریعے جج کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔ ایس ایچ او یا کوئی اور ادارہ اس طرح سے جج سے متعلق رائے قائم نہیں کر سکتا۔
جسٹس مقبول باقر نے وکیل منیر اے ملک سے کہا کہ ہم آپ کی دلیل سمجھ گئے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں جسٹس قاضی فائز کے خلاف غیر مجاز اتھارٹیز کے ذریعے تحقیقات کی گئیں۔
جسٹس مقبول باقر نے وکیل سے کہا کہ ’ہمیں ایسٹ ریکوری یونٹ کی قانونی حیثیت سے متعلق بتائیں، ایسٹ ریکوری یونٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ ایسٹ ریکوری یونٹ میں سول سرونٹ نہیں ہیں۔‘
دوران سماعت ایک موقع پر شکایت کنندہ مسٹر ڈوگر عدالتی روسٹرم پر جسٹس قاضی فائز کے وکیل منیر اے ملک کے برابر آ کر کھڑے ہوگئے۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا نے وکیل سے پوچھا کہ یہ صاحب کون ہیں؟ تو منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ’یہ ڈوگر ہے۔‘
جسٹس عمر عطا نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا کہ یہ شکایت کنندہ ڈوگر ہے؟۔ وکیل نے جواب دیا کہ ’مسٹر ڈوگر نے میرے کان میں آ کر کہا کہ وہ ڈو گر ہے۔‘
یہاں یہ امر دلچسپ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ’مخبری‘ کرنے والے صحافی ہونے کے دعویدار وحید ڈوگر اسلام آباد میں ایک صحافی لیڈر کے قریب سمجھے جاتے ہیں جبکہ ایک اور صحافی لیڈر افضل بٹ نے سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز کے حق میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنالسٹس کی جانب سے درخواست دائر کی ہے۔
خیال رہے کہ فیض آباد دھرنا کیس فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے میڈیا پر پابندیوں کا بھی تفصیل سے ذکر کیا تھا۔
واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز کے خلاف ’مخبری‘ کرنے والے وحید ڈوگر نے معروف صحافی احمد نورانی پر حملے کے بعد ’لڑکی کے بھائیوں‘ والی خبر شائع کی تھی۔
بعد ازاں انہوں نے ایک وضاحت میں کہا تھا کہ ان کو ’لڑکی کے بھائیوں‘ والی خبر مقامی پولیس کے ایس ایچ او نے دی تھی۔