آرمی چیف، حکومت اور عدالت کا مقابلہ؟
Reading Time: 3 minutesپاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت نے فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو تین سال کے لیے مزید ملازمت کی توسیع دینے کے فیصلے کا دفاع کرنے کے لیے جمعرات کو سپریم کورٹ میں نئی سمری اور نوٹی فیکیشن پیش کیا جس کو عدالت تسلیم کر لیا ہے۔
بدھ کو رات گئے وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت اجلاس میں قانونی ٹیم سے مشاورت کی گئی۔ بتایا گیا ہے کہ اجلاس میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔
اس سے قبل بدھ کو چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا تھا کہ اس طرح تو کوئی اسسٹنٹ کمشنر کے تقرر کا نوٹی فیکیشن جاری نہیں کرتا جس طرح حکومت نے آرمی چیف جیسے بڑے عہدے کا کیا، یہ بے توقیری ہے۔
پاکستان کے اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ ریٹائرڈ جرنیل کو بھی فوج کا چیف لگایا جا سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پھر تو کسی کو بھی لگایا جا سکتا ہے۔
چیف جسٹس آصف کھوسہ نے کہا ہے کہ آرمی آفیسر کے حلف میں ہے کہ اگر جان دینی پڑی تو دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ "میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا” یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے۔ بہت اچھی بات ہے اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کا معاملہ عدالت میں آیا ہے تو اس کو طے کر کے ہی رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جرنیل خود کو پانچ سال کی توسیع دیتے رہے۔ ”یہ بہت اہم مسئلہ ہے، قانون کی شقیں خاموش ہیں۔ معاملہ عدالت آیا ہے تو طے بھی کریں گے تاکہ مستقبل کے لیے وضاحت ہو سکے۔“
چیف جسٹس نے کہا کہ تسلی سے سب کو سنیں گے کوئی جلدی نہیں۔ اس سے پہلے یہ سوال اٹھایا نہیں گیا اب اٹھا ہے تو اس کے تمام قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی چیف ملٹری کو کمانڈ کرتا ہے، ان کی تعیناتی صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر کرتا ہے، اٹارنی جنرل نے جب کہا کہ جسٹس کیانی کی توسیع بھی اسی طرح ہوئی تھی تو چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس کیانی نہیں جنرل کیانی۔ اس بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں تعیناتی کی مدت کی بات کی گئی ہے، آرمی چیف کتنے عرصے کے لیے تعینات ہوتے ہیں، کیا آرمی چیف حاضر سروس افسر بن سکتا ہے یا ریٹائر جنرل بھی، قواعد کو دیکھنا ضروری ہے۔
اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ آرمی چیف ایک عہدہ ہے اور وزیراعظم کسی ریٹائرڈ جرنیل کو بھی فوج کا سربراہ مقرر کر سکتے ہیں۔
انور منصور خان نے کہا کہ آئین میں وزیراعظم پر کوئی قدغن نہیں ہے اور وہ کسی بھی ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کر سکتے ہیں، چاہے انھیں ریٹائر ہوئے 10 سے 20 سال ہو گئے ہوں۔
عدالت نے سوال اٹھایا کہ آرمی چیف تین سال کے بعد کیسے ریٹائر ہو جاتا ہے جب اس کی مدت کا تعین ہی نہیں ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر مدت کا تعین نہیں ہے تو پھر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کیوں کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے یہ استفسار کیا کہ موجودہ آرمی چیف کب ریٹائر ہو رہے ہیں تو پھر آرمی چیف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر آئے اور بتایا کہ 28 نومبر 2019 کی رات 12 بجے ان کی مدت ملازمت ختم ہونے والی ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیونکہ یہ بہت اہم معاملہ ہے اور فوج کی قربانیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن فوج کو یہ بھی کم از کم معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا کمانڈر کون ہو گا۔
عدالت نے حکومت کی قانونی ٹیم کو جمعرات تک معاملات کو درست کر کے سپریم کورٹ میں تحریری جواب دینے کی ہدایت کی تھی۔