جناب چیف جسٹس! ظلم و استبداد کب تک؟
Reading Time: 2 minutesرستم اعجاز ستی
وطن عزیز میں ماورائے آئین و قانون بلکہ ماورائے عالمی قوانین اور انسانیت کے خلاف جرائم کے زمرے میں آنے والی جبری گمشدگیوں کا سلسلہ دیدہ دلیری سے جاری ہے۔ آئین میں درج بنیادی حقوق تو چھوڑیے یہاں تو عزت و ناموس کا تحفظ مشکل ہو رہا ہے۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں کہ کب کہاں سے اٹھا لیا جائے اور پھر مہینوں برسوں سراغ ہی نہ ملے۔
عدالتوں کی بھرپور کوششوں کے باوجود سالہا سال سے لاپتہ لوگوں کا کوئی سراغ نہیں مل رہا جبکہ دوسری طرف آئے روز لوگوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ کب تک آوازوں کو دبانے کے لیے یہ سلسلہ جاری رہے گا؟
نوبت یہ آ گئی ہے کہ اب جبری لاپتہ افراد کی وکالت کرنے اور مظلوموں کے حقوق کے لیے طاقت وروں سے ٹکرانے والے وکلا کو بھی لاپتہ کیا جا رہا ہے۔ 16 دسمبر کی رات ساڑھے بارہ بجے آٹھ دس مسلح افراد کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈووکیٹ کے گھر میں گھس گئے اور انہیں اغوا کر لیا۔
کرنل انعام الرحیم ایڈووکیٹ ایک درویش صفت اور فقیر منش انسان ہیں۔ راست گوئی اور کھرا پن ان کی شخصیت کا خاصا ہے، اسی سچائی اور کھرے پن کی انہوں نے بہت قیمت بھی ادا کی لیکن وہ جس بات کو درست سمجھتے ہیں اس کا برملا اظہار کرتے ہیں۔
سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کو کرنل انعام نے چیلنج کیا تھا اور دلیل کے ساتھ بتایا تھا کہ اس کی آرمی ایکٹ یا آئین و قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔ اس جرات کی پاداش میں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
انہوں نے جنرل ریٹائرڈ عاصم باجوہ کی بطور چیئرمین سی پیک اتھارٹی تقرری کو بھی چیلنج کر رکھا ہے اور ایسے درجنوں کیس تھے جو زور آوروں کے خلاف انہوں نے دائر کر رکھے تھے۔ وہ طاقت وروں کو جوابدہ بنانے کے کیے عدالتوں سے رجوع کرتے رہتے ہیں۔
ہائیکورٹس اور سپریم کورٹس کے ججز جانتے ہیں کہ کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم صرف انصاف کے متلاشی تھے اور اس راستے میں وہ طاقت وروں سے ٹکرانے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ عدالتوں کے روبرو وہ اپنے مقدمات میں خود پیش ہوا کرتے تھے۔
اب دس روز سے کسی کو علم نہیں کہ بوڑھا کرنل کہاں اور کس حال میں ہے۔ پاکستان بار کونسل نے بھی ان کی جبری گمشدگی کی مذمت کی اور بازیابی کا مطالبہ کیا لیکن تاحال کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔
حکومت سے کیا مطالبہ کیا جائے اس کو تو پروا ہی نہیں کہ آئے روز شہریوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ اس لیے چیف جسٹس صاحب کو متوجہ کرتے ہیں کہ ایڈووکیٹ انعام الرحیم کی جبری گمشدگی کا نوٹس لیا جائے۔
یہ کون ہیں جنہوں نے آئین کو مذاق بنایا ہوا ہے اور قانون کا تمسخر اڑاتے رہتے ہیں۔ انعام الرحیم ایڈووکیٹ سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کی نیک نیتی اور آئین و قانون سے لگاؤ کے بارے میں کسی کو شک نہیں۔
ایک سچے اور کھرے انسان کی زبان بندی کے لیے اس کے گھر رات کی تاریکی میں گھس کو اس کو اغوا کرنا ملک کی بدقسمتی ہے اور طاقتوروں کے بوڑھے قانون دان سے خوفزدگی کو ظاہر کرتا ہے۔
ظلم و استبداد ۔۔۔۔۔
ختم ہونا چاہیے اس ملک میں
ہر طرح کے ظلم و استبداد کو
کاش عدالت ڈٹ کر کہہ سکے
پیش کیجئے لاپتہ افراد کو