پنکی اور صحافی پکڑے گئے
Reading Time: 2 minutesدو جولائی کو رات دو بجے اسلام آباد میں وکیلوں کے ہاسٹل پرپولیس کے چھاپے سے متعلق مزید حقائق سامنے آئے ہیں۔ پاکستان 24 کی تحقیق میں انکشاف ہواہے کہ پولیس نے چھاپہ سپریم کورٹ کے ایک وکیل کی شکایت پر مارا۔ جبکہ چھاپے میں اسلام آباد کے دو صحافی اور شہرکی مشہورکال گرل پنکی بھی پکڑی گئی، یہ بھی معلوم ہواکہ جس اسسٹنٹ کمشنر کی زیرنگرانی چھاپہ مارا گیا اس پر وزارت داخلہ کی جانب سے گرفتار افراد کو بغیر کسی ضمانت کے گھروں کو جانے کی اجازت دینے کیلئے شدید دباﺅ ڈالاگیا جس کے جواب میں اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی مجبوری یہ بتائی کہ ایک ٹی وی چینل کے کیمرہ مین نے تمام ملزمان کی ویڈیو بنالی ہے اس لیے اب ضمانت کے بغیر رہائی ممکن نہیں۔ ذرائع کاکہناہے کہ اس جواب پر اسسٹنٹ کمشنر اور میڈیا والوں کے خلاف وزارت داخلہ کے افسر نے نازیبا الفاظ استعمال کیے۔
معلوم ہواہے کہ دوجولائی کو رات ڈیڑھ بجے سپریم کورٹ کے وکیلوں کے ہاسٹل سے غیر قانونی طورپر ہوٹل میں تبدیل کی گئی عمارت میں اونچی آواز میں میوزک بجایا گیا تو وہاں رہائش اختیار کیے ایک وکیل نے تھانہ سیکرٹریٹ کو فون کرکے شکایت کی لیکن پولیس کی جانب سے کارروائی نہ کرنے پر مذکورہ وکیل نے دوبارہ تھانے کو فون کرکے ڈیوٹی افسر کو کہاکہ اگر چھاپہ نہ ماراگیا تو وہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرے گا، جس کے بعد پولیس حکام نے اسسٹنٹ کمشنر کو فون کرکے اطلاع کی، اور آدھے گھنٹے بعدریڈ زون میں واقع ہوٹل گرینڈ ایمبیسڈر پر چھاپہ ماراگیا جس کی نگرانی اسسٹنٹ کمشنر کیپٹن شعیب نے کی۔
چھاپے کے دوران پچاس مرد وخواتین گرفتار کیے گئے جو ہوٹل کی چھت پر شیشہ اسموکنگ، نشہ آور گولیاں استعمال کرکے اونچی آواز میں میوزک بجاتے ناچ گانے میں مصروف تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ گرفتار افراد میں اسلام آباد کے دو صحافی بھی شامل تھے جبکہ شہرمشہور ڈانسر اور کال گرل پنکی کو بھی پولیس نے حراست میں لیا۔ اسلام آباد میں جرائم کو رپورٹ کرنے والے صحافی بتاتے ہیں کہ پنکی ہربڑی محفل کی جان ہوتی ہے اور سیاستدانوں اور بیورکریٹس کی پارٹیوں میں شرکت کی وجہ سے پولیس نے اسے کبھی گرفتار نہیں کیا ، پولیس کے تمام اعلی افسران مذکورہ خاتون سے رابطے میں رہتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پنکی اور صحافیوں کی گرفتاری کے بعد وزارت داخلہ کے اعلی افسران نے پولیس چھاپے پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا، اور چھاپے کی نگرانی کرنے والے اسسٹنٹ کمشنر کوفون کرکے تمام گرفتار افراد کو فوری رہا کرنے کیلئے کہا لیکن اس وقت تک ایک نجی ٹی وی چینل کے کیمرہ مین نے حراست میں لیے گئے افراد کی ویڈیو بنالی تھی اس لیے ضمانت کے بغیررہائی ممکن نہ ہوسکی۔