کالم

آئی ایم ایف سے معاہدہ مگراگلا سال مزید بدتر ہوگا

جون 30, 2023 3 min

آئی ایم ایف سے معاہدہ مگراگلا سال مزید بدتر ہوگا

Reading Time: 3 minutes

آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعدتکنیکی طور پر پاکستان کو ایک سال اور مل گیا کہ وہ کچھ اصلاحات کر کے اپنے آنے والوں برسوں میں کچھ آسانی پیدا کر سکے۔
آئیے ممکنہ ریفارمز پر کچھ گفتگو اور تجزیہ کرتے ہیں۔

سروسز سیکٹر پر ٹیکس:
آپ اگر کسی میڈیکل ڈاکٹر کنسلٹنٹ کے پاس گئے ہوں تو اپ کو علم ہوگا کہ اوسط فیس تین ہزار اور اوسط مریض 30 ہیں گویا ایک کنسلٹنٹ روزانہ نوے ہزار روزانہ اور تقریبا بائیس لاکھ ماہانہ کماتا ہے اور یہ سالانہ دو کروڑ ستر لاکھ روپے بنتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی ملک میں اس آمدن پر کم از کم ٹیکس سلیب چالیس فیصد اور زیادہ سے زیادہ ساٹھ فیصد ہوتا ہے لیکن یہ سیکٹر اپنی آمدنی کا دس فیصد بھی ظاہر نہیں کرتا۔

یہی حال وکالت،اکاؤنٹینسی اور دوسرے سروسز سیکٹرز کا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کے جی ڈی پی میں سروسز سیکڑ کا کل حصہ ساڑھے اٹھاون فیصد ہے لیکن کل ٹیکس میں ان کا حصہ صرف 29 فیصد ہے،جو ٹیکس جمع ہوتا ہے اس کی وجہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جو زیادہ تر ملٹی نیشنل پر مشتمل ہے جو ٹیکس کاٹ کر ادائیگی کرتا ہے۔

پاکستان کی ناجائز فوجی حکومتیں خوفزدہ ہو کر اس طبقے پر ٹیکس نہیں لگا سکتیں اور نیم جائز سیاسی حکومتیں اس ڈر سے نہیں لگا سکتی کہ ان کے سیاسی مخالفین فوجیوں سے مل کر تختہ نہ الٹ دیں۔

اس سیکٹر نے سات ہزار ارب ٹیکس میں سے ایک ہزار 960 ارب روپیہ دیا ہے جبکہ باآسانی 2100 سالانہ ان سے مزید لیا جاسکتا ہے۔

اہم ترین سوال یہ ہے کہ آنے والی حکومت ایسا کر سکے گی؟اور خاص طور پر وکلا جو ایک مربوط مافیا ہیں سے کچھ وصول کر سکے گی یا ان کے احتجاج میں کسی عمران خان، طاہرالقادری یا ظہیرالاسلام کی شمولیت کے ڈر سے پیچھے تو نہیں ہٹ جائے گی؟

پاکستان کا دوسرا بڑا سیکٹر انڈسٹری ہے جو جی ڈی پی کا اٹھارہ اعشاریہ آٹھ فیصد پروڈیوس کرتی ہے اور ٹیکس میں اس کا حصہ ستر فیصد ہے۔

آپ یقین کریں کہ اگر ایف ایم سی جی سیکٹر میں ملٹی نیشنلز نہ ہوں تو یہ کبھی بھی نہ ہوسکے،اس کا سب سے بڑا حصہ سیلز ٹیکس سے آتا ہے یعنی جب کنزیومر اولپر یا ملک پیک کا دودھ لیتا ہے وہ اس پر اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے تو یہ دراصل انڈسٹریل سیکٹر کی کولیکشن میں گنا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ لارج سکیل مینوفیکچرنگ کا حصہ اس ساری ٹیکسیشن سے نکال دیا جائے تو کچھ باقی نہ بچے گا،بقول شبر زیدی کے پاکستان میں ستر فیصد سے زائد انڈسٹریل میٹرز ایک ٹکے کا سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

سوال یہ ہے کہ اس تاجر مافیا کو کون لگام ڈالے گا؟نہ تو فوجی حکومت ایسا کر سکتی ہے اور نہ ہی کوئی ہائبرڈ حکومت ایسا کر سکتی ہے۔
اس کے لئے بھی ایک مضبوط عوامی حکومت کی ضرورت ہے۔

اب آجائیے اس جملے پر جو آپ نے بچپن سے سنا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔

پاکستان کی جی ڈی پی میں زراعت کا کنٹریبیوشن 24 فیصد جبکہ ٹیکس میں حصہ صفراعشاریہ 60 فیصد یعنی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا مافیا یہاں بیٹھا ہے۔

کیا اپ جانتے ہیں کہ پچھلے سال ہمارے پاس کتنی سرپلس چینی تھی؟ جی ہاں بارہ لاکھ ٹن چینی گوداموں میں پڑی رہی اور ان بدمعاشوں نے ای سی سی سے شکر اور گڑ کی ایکسپورٹ پر پابندی لگوائے رکھی۔

چینی کی عالمی قیمت 120 روپے اور شکر کی عالمی قیمت تین سو ستر روپے ہے،خوفزدہ مافیا نے یہ پابندی اس لئے لگوائے رکھی تاکہ کسان ان کو گنا بیچنے پر مجبور رہے۔
جس دن بھی اپٹما کو دی گئی مراعات اور ان سے افادے کا آڈٹ ہوگا تو اپ کو سمجھ آجائے گی کہ سب سے بڑا مسئلہ کہاں ہے۔

ایگریکلچر مافیا اربوں روپے لگا کر اسمبلیوں میں جاتا ہے تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے اور اس ملک کو آگے بڑھنے سے روک سکے۔

باقی دو سیکٹرز میں تو مجھے اصلاح کے کچھ امکانات نظر آتے ہیں لیکن اس شعبے میں کسی کی مجال نہیں کہ کچھ کر سکے۔

امید ہے کہ ایک سال گذرنے کے بعد آپ اس سے بھی بری صورتحال سے دوچار ہوں گے کیونکہ ایک طرف خاکی سرمایہ سول سرمائے کو شکست دے رہا ہو گا اور وہ بندوق کے زور پر اپنے مفادات کو ملکی مفادات سے بالاتر رکھیں گے اور دوسری طرف باقی مافیاز بھی کسی شعبے میں اصلاحات سے روکے رکھیں گے۔

یہی ہوتا آیا ہے اور یہی ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے