سرحدی حملے، پاکستان اور افغانستان تحمل کا مظاہرہ کریں: امریکہ
Reading Time: 2 minutesامریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں کہ افغانستان پھر کبھی دہشت گردوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہ بنے جو امریکہ یا ہمارے شراکت داروں اور اتحادیوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
پیر کو واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ’ہم طالبان پر زور دیتے ہیں کہ افغان سرزمین سے دہشت گرد حملے نہ کیے جائیں اور ہم پاکستان پر بھی زور دیتے ہیں کہ تحمل کا مظاہرہ کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں شہریوں کو نقصان نہ پہنچے۔‘
ایک سوال کے جواب میں کہ کیا امریکہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور انٹیلی جنس معلومات کے تبادلے میں پاکستان کی مدد کر رہا ہے، نائب ترجمان کا کہنا تھا ’افغانستان کے معاملے پر تفصیل سے بات کرنے کے لیے ہم پاکستانی رہنماؤں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، انسداد دہشت گردی پر ڈائیلاگ اور دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے بھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کریں۔
محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان سے سوال کیا گیا کہ کیا پاکستان کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کا مطلب یہ ہے کہ فضائی حملہ نہیں کرنا چاہیے تھا اور مزید نہیں کرنے چاہیں، اس پر ویدانت پٹیل نے کہا کہ ’شہریوں کی جانوں کا نقصان ہمارے لیے تکلیف دہ ہے، اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ جب بھی اس قسم کے آپریشن کیے جائیں تو ہر ممکن اقدام اٹھایا جائے کہ مجرموں کا احتساب ہو، نہ کہ عام شہری ان سے متاثر ہوں۔‘
پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی صدر آصف زرداری سے ہونے والی ملاقات سے متعلق سوال پر مختصر بات کرتے ہوئے ویدانت پٹیل نے کہا کہ دونوں کے درمیان ’دوطرفہ تعلقات پر گفتگو ہوئی۔‘
نائب ترجمان نے مزید بتایا کہ سفیر ڈونلڈ بلوم کی 15 مارچ کو وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی تھی جس میں دوطرفہ امور پر بات چیت ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ ملاقات میں’علاقائی سلامتی پر حکومت پاکستان کے ساتھ شراکت داری، آئی ایم ایف کے ساتھ اور اس کے ذریعے پاکستان میں مسلسل معاشی اصلاحات پر امریکہ کی حمایت، تجارت اور سرمایہ کاری، تعلیم، ماحولیاتی تبدیلی اور نجی شعبے پر مبنی معاشی ترقی پر بات چیت ہوئی جن پر پاکستان کے ساتھ بات کرتے رہتے ہیں۔‘
ویدانت پٹیل نے کہا کہ ملاقات میں ان معاملات کے علاوہ دیگر امور پر بھی زیرِ غور آئے۔