کالم

صحافت کا ’کوہسار مارکیٹ‘ ماڈل

مارچ 2, 2025 3 min

صحافت کا ’کوہسار مارکیٹ‘ ماڈل

Reading Time: 3 minutes

نورالامین دانش
ویسے تو پاکستان میں صحافت کے کئی ماڈلز پر بات کی جا سکتی ہے جن کے سفر کی منزل حکومتی عہدے ہوتے ہیں لیکن صحافت میں آنے والی ماس کمیونیکیشن کی نئی بریڈ کو سارا دن سورسز اور خبروں کے پیچھے بھاگ دوڑ کو کامیابی کا راستہ بتا کر ڈگری تھمانے والے اساتذہ کرام اور صحافت کے سینیئرز کو اس کا ’کوہسار ماڈل‘ لازمی نہ صرف پڑھانا چاہیے بلکہ اسے نصاب میں شامل کر کے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں بھرپور کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے۔

اسلام آباد کی یہ مارکیٹ اپنے بیٹھنے والوں کے لئیے ایچی سن اور لمز سے بھی زیادہ طاقتور ثابت ہو چکی ہے۔

کوہسار ماڈل بتانے سے قبل ایک اہم بات آپ نے ہمیشہ یاد رکھنی ہے کہ کریڈٹ پر کوئی خبر ہو نہ ہو بس آپ نے ’ماحول‘ بھرپور انداز میں بنا کر رکھنا ہے۔

شام ہوتے ہی آپ نے کوہسار مارکیٹ، ایف سکس، ایف سیون مرکز کے کسی بڑے کافی ہاؤس (بھلے آپ کو کافی سے نفرت ہو) یا کسی فائیو سٹار ہوٹل کی انٹرنیشل برینڈ کے کافی ہٹ پر براجمان ہو جانا ہے۔ آپ کے پاس کسی مہنگے برینڈ کے دو چار کوٹ، پانچ سات شرٹس، اور دو تین جوڑے جوتوں کے ہونا لازمی ہیں۔ اب یہاں پہنچ کر آپ نے سب سے مختلف اینگلز سے پکچرز بنانی ہیں، بڑے بڑے اینکرز کو جن سے آپ کا ڈائریکٹ واسطہ رابطہ نہ بھی ہو، انہیں کسی کے ساتھ کھانے پر دعوت دینی ہے اور ہاں ساتھ میں آپ نے چار پانچ بے چارے غریب رپورٹرز لازمی رکھنے ہیں جو آپ کی گاڑی اور کھانے کے بھاری بھرکم بل کی ادائیگی کے ساتھ ہی اپنی شخصیت آپ کے حوالے کر دیں۔ اور یوں ان کا کام اس ساری میٹنگ میں آپ کو سر سر کرنا ہو گا تاکہ تمام پارٹیوں کو یہ باور کروایا جائے کہ یہ ’اوورکوٹ صاحب‘ کوئی بہت مانے ہوئے چوٹی کے صحافی ہیں جن کے بغیر صحافت کا تصور ہی ممکن نہیں۔

اس ساری کارروائی کی تصاویر کبھی بھی لینا مت بھولیں کیونکہ آگے چل کر یہی آپ کو مختلف چینلز کے ڈائریکٹر نیوز سے لے کر وفاقی وزیر کے عہدے تک پہنچائیں گی۔

ایک صحافی کو اسلام آباد میں رپورٹنگ کے لیے نئی بیٹ ملی۔ اس بیٹ کے بڑے بڑے تین رپورٹرز کسی نئے انے والے کو سلام تک کرنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے بس پھر کیا اُن صاحب نے ایک دن ان کو مرسیڈیز میں چکر لگوایا، میریٹ، سرینا کا کھانا کھلایا اور پھر کیا تھا دفتر سے پہلے ٹکرز اس شریف آدمی کو جانا شروع ہو گئے اور یوں وہ سب سے آگے نکل گیا اور خبریں دینے والے محنتی صحافی مزید گمنامیوں میں دھنس گئے۔

کوہسار ماڈل میں آپ کی اوورکوٹ شخصیت کو بہترین قسم کی پینٹنگ سے ایسا دھندلا کیا جاتا ہے کہ پھر اصل رنگ واپس کبھی نہیں آتا۔ بین الاقوامی میڈیا میں اگر آپ جانا چاہتے ہیں تو بھی سیڑھی ننانوے فیصد اسی مارکیٹ سے ہو کر جاتی ہے۔
بڑے بڑے ایڈیٹرز کو کھانے پر بلائیں ، تصوریریں لگائیں، انگریزی میں ٹویٹس کریں تو کوئی ’لابی‘ آپ کو انٹرنیشنل میڈیا میں پہنچا دے گی۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں تو آپ کی بھول ہے لیکن وہ تب جب آپ اس مارکیٹ میں بیٹھتے ہوں۔ بس پھر اللہ آپ کا بھلا کرے آپ کی ڈگری کو ایسا بیچا جائے گا کہ کبھی کبھی گمان ہو گا کہ یار کہیں ایلون مسک کو خلا میں جانے والے مشن میں مشورہ بھی انہوں نے ہی دیا ہو گا۔

یہ چاہیں تو کسی کو ٹرمپ کا مشیر بنا دیں، چاہیں تو کسی کو گداگر، ان کا کام بس گیم کو اوپر اُٹھانا ہے جس کے بدلے آپ کو سینیئر صحافی کا خطاب مل جائے گا۔

ویسے تو کوہسار مارکیٹ جرنلزم کے حوالے سے ہزاروں واقعات فل الوقت دستیاب ہیں لیکن اگلی کہانی تک آخری نشانی یہ بھی لیتے جائیے کہ یہاں کے فارغ التصحیل لوگوں کو کبھی جیسے بھی حالات ہوں کسی بھی قسم کی رائے دینے سے سختی سے منع کیا جاتا ہے کیونکہ کوہسار مارکیٹ کی اس دنیا میں کوئی بھی کبھی بھی کہیں بھی کسی بھی عہدے تک پہنچ سکتا ہے۔

لہذا سمجھے یہ کہ آپ نے کبھی کچھ بھی نہیں دیکھا۔ مختصر یہ ہے کہ آپ کے ذہن کو بس پی ٹی وی نیوز بننا پڑتا ہے۔ کامیابی کی گارنٹی سو فیصد ہے اور منزل وزیراعظم کا عہدہ بھی ہو سکتا ہے، آگے آپ کی قسمت ہے۔
وزیر اطلاعات یا وزیر داخلہ بن کر مطمئن ہو جاتے ہیں یا مزید پالش کر کے وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل ہوتے ہیں۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے