ایران اور ترکی کیوں متفق ہوئے؟
Reading Time: 2 minutesعراق کے علاقے کردستان میں خود مختاری کے ریفرنڈم نے پڑوسی ممالک کے حکمرانوں کی نیندیں اڑا دی، کرد اقلیت جو ایران عراق ترکی اور شام تک پھیلی ہوئی ہے وہ اپنے الگ ملک کے لیے سرگرم ہے،تاہم ہمسایہ ممالک جو دیگر تمام امور پر ایک دوسرے سے سخت اختلاف رکھتے ہیں، کرد ریاست بننے کے خلاف متحد ہیں۔
ترک زدر طیب اردوان نے ایران کے ہنگامی دورے کے دوران کہا ہے کہ عراق میں کردوں کی علاقائی حکومت کے لیے ریفرنڈم دراصل عراق کو توڑنے کی کوشش ہے، اس سازش کے خلاف فیصلہ کن کاروائی وقت کی ضرورت ہے۔
ایرانی صدر حسن روحانی کے ہمراہ پریس کانفرنس میں دونوں سربراہان نے عراقی سرحدوں میں تبدیلی کے خلاف اتحاد کا اعلان کیا، ترک صدر نے کہا کہ اس وقت آگیا ہے فیصلہ کن اقدام کیا جائے، تاہم انہوں نے عراقی کردوں کے خلاف اقدام کی تفصیل نہیں بتائی، اس سے قبل ترکی نے کردستان کی علاقائی حکومت کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کرنے کی دھمکی بھی دے تھی۔
اردوان نے کہا کہ یہ غیر قانون ریفرنڈم تھا جسے ہم تسلیم نہیں کرتے، ان کا کہنا تھا کہ یہ قسم کا ریفرنڈم کرایا گیا، اسرائیل کے علاوہ اس ریفرنڈم کو کوئی تسلیم نہیں کرتا، انہوں نے کرد لیڈر شپ کے بارے میں کہا کہ وہ خود کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ جوڑ کر ریفرنڈم کو قانونی نہیں بنا سکتے،اردوان کا کہنا تھا کہ ترکی اور ایران اس خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں، جس میں عراق اور شام کو توڑنے کا منصوبہ ہو۔
دوسری جانب نے ایرانی صدر نے کرد ریاست کی مخالفت کی، تاہم انہوں نے کہا کہ کرد لوگوں سے ہماری کوئی مخالفت نہیں، ہم صرف عراق کی یک جہتی چاہتے ہیں، حسن روحانی نے اردوان کے برعکس کرد ریفرنڈم کو غیر ملکی فرقہ وارانہ منصوبہ قرار دیا۔
واضع رہے کہ پچیس ستمبر کو عراق کے شمالی کرد علاقے نے بغداد سے الگ ہونے کے لیے ریفرنڈم میں بڑی تعداد میں ووٹ دیے تھے