پاکستان

حدیبیہ کیس ہمیشہ کیلئے ختم

دسمبر 15, 2017 4 min

حدیبیہ کیس ہمیشہ کیلئے ختم

Reading Time: 4 minutes

سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے حدیبیہ ریفرنس کھولنے کیلئے نیب کی اپیل خارج کر دی ہے ۔

نیب کے پراسیکیوٹر عمران الحق عدالتی روسٹرم پر کھڑے ہوئے، سامنے جسٹس مشیرعالم کے دائیں جسٹس قاضی فائز اور بائیں جسٹس مظہرعالم موجود تھے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ نیب قانون میں ترمیم کرکے اعترافی بیان مجسٹریٹ کے سامنے دینے کی شق شامل کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ اسحاق ڈار کا بیان پچیس اپریل اور ترمیم پانچ جولائی کو لائی گئی اس طرح تو کیس نہیں بنے گا۔ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ قانون میں ترمیم کے اس نکتے کو ٹرائل کورٹ دیکھ سکتی ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہائیکورٹ نے جس بنیاد پر ریفرنس ختم کیا وہ قانون کی غلط تشریح تھی، شواہد کو بھی درست طور پر نہیں دیکھا گیا، قانون میں واضح نہیں تھاکہ ملزم کا بیان کس کے سامنے ریکارڈ کیاجائے گا۔ جسٹس قاضی نے کہاکہ قانون میں ایسا نہیں لکھا، آپ درست نہیں پڑھ رہے۔ جسٹس مشیرعالم نے پھر مداخلت کی اور کہاکہ یہ کیس کا میرٹ ہے جو احتساب عدالت سن سکتی ہے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے عدالت میں ریکارڈ سے درخواست پڑھنا شروع کی جس میں کہاگیاتھاکہ ساتھ منسلک کیے گئے بیان کے مطابق ایسا ہے ویسا ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے پوچھاکہ یہ منسلک کیا گیا بیان دکھادیں۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہمارے پاس دستیاب نہیں ہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ سمجھ نہیں آرہا کہ یہ ہوکیارہاہے، جس بیان کا حوالہ دے کر اس کو منسلک کہتے ہوئے بتارہے ہیں وہ عدالت میں دکھا بھی نہیں سکتے، سب سے اہم دستاویز نیب نے لگائی ہی نہیں۔
جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ اگر اسحاق ڈار کو معافی مل چکی ہے تو وہ ملزم نہیں، اگر صدارتی معافی ہٹادی جائے تو ان کے بیان بھی ختم ہوجائے گا اور وہ ملزم ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ ہم اس وقت اپیل تاخیر سے دائر کرنے کی وجوہات سن رہے ہیں، مطمئن کریں گے تو پھر اپیل کو سناجائے گا۔جسٹس قاضی فائز نے پوچھاکہ ملزمان پرعائد فردجرم دکھادیں۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ حدیبیہ ریفرنس میں فرد جرم عائد ہی نہیں ہوئی۔جسٹس قاضی نے کہاکہ پھر تو کوئی مقدمہ ہی نہیں جب فردجرم عائد نہیں کی گئی۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ مقدمہ موجود ہے مگرملزم باہر چلے گئے تھے۔
جسٹس مشیرعالم نے پوچھاکہ حدیبیہ ریفرنس پر نیب کورٹ میں آخری کارروائی کب ہوئی تھی اور کیا آرڈر آیاتھا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کافی دیر تک ساتھی وکیلوں کی مدد سے فائلیں کھنگالیں مگر کچھ نہ ملا تو بتایاکہ نیب کورٹ کی آرڈر شیٹ دستیاب نہیں ہے۔جسٹس مظہرعالم نے کہاکہ آپ کی نیت اور کارکردگی کا اصل پتہ اس بات سے چلے گا کہ ہائی کورٹ میں جب درخواست زیرسماعت تھی تو آپ نے نیب کورٹ میں کیا کیا۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم اس دوران نیب عدالت میں ریفرنس کارروائی بڑھانے پر زور دیتے رہے۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ یہ بات ریکارڈ سے دکھادیں۔ ان کاکہنا تھاکہ ہم نیب کی سپریم کورٹ میں تاخیر سے اپیل کو سن رہے ہیں مگر یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں کہ یہاں کا تاخیری وقت معاف کریں تو معلوم ہوکہ احتساب عدالت میں کیسے اور کیوں تاخیر کی گئی ۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ ملک کے چیف ایگزیکٹو یا وزیراعظم اداروں کے سربراہ اپنی مرضی سے لگاتے ہیں۔ جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ اس کو اپیل میں تاخیر سے کیسے جوڑیں گے؟۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ کیا یہ کہہ رہے ہیں کہ مشرف کے لگائے نیب چیئرمین نے جان بوجھ کر حدیبیہ ریفرنس خراب کیا؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ تاخیر کی وجوہات بیان کر رہا ہوں۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ اگر ملزم نے کسی سے گٹھ جوڑ کرکے ریفرنس میں تاخیر کرائی ہو تو نیب قانو ن کے تحت اس شخص کے خلاف بھی کارروائی کی جاسکتی ہے، نیب نے کیا کیا؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حدیبیہ اپیل دائر کی گئی۔ریفرنس میں دوبارہ تفتیش سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق اسی وقت کی جاسکتی ہے جب ہائیکورٹ کے فیصلے کو ختم کیا جائے اور اس اپیل کو منظور کیاجائے۔جسٹس مشیرعالم نے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں ریفرنس کھولنے کا کہاں کہا گیا ہے بتا دیں۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے جسٹس کھوسہ، جسٹس عظمت اور جسٹس اعجازالاحسن کی آراء کے پیراگراف گنوا کر لکھوائے۔
عدالت نے اپیل میں تاخیر کاعنصر ختم کرنے کیلئے ماضی کے عدالتی فیصلوں کی مثالیں مانگیں تو نیب کے پراسیکیوٹر نے نوازشریف کے ہی مقدمے کی سب سے پہلے مثال دی جس کے مطابق طیارہ اغوا کیس میں سنہ دوہزار میں سنائی گئی ہائیکورٹ کی سزا کے خلاف اپیل آٹھ سال اور ایک سوچھتیس دن کے تاخیر سے سپریم کور ٹ میں دائر کی گئی، دوسری مثال انیس سو ننانوے کے نزیر احمد فیصلے کی دی گئی جو بریت کے فیصلے کے خلاف دوماہ کی تاخیرسے دائر کی گئی۔ جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ یہ دونوں مقدمات فوجداری تھے جن میں سزا سنائی گئی تھی۔
جسٹس قاضی فائز نے پوچھا کہ اگر ایک کیس ختم ہوجائے تو کیا اس میں دوبارہ تفتیش ہو سکتی ہے؟ نیب کے پراسیکیوٹر نے بتایاکہ انہی ملزمان کے خلاف نہیں ہوسکتی مگر نئے ملزمان کے حوالے سے شواہد سامنے آئیں جو پرانے ملزمان سے منسلک ہوں تب ہوسکتی ہے۔جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ تب نیا کیس بنے گا۔نیب اپیل تاخیر سے دائر کرنے پر مطمئن کرے تو اپیل سماعت کیلئے منظور کرلیں گے۔جسٹس مشیرعالم نے نیب کے پراسیکیوٹر سے کہاکہ کوئی نیا قانونی نکتہ بھی لائیں گے یا وہی پرانے دلائل دہراتے رہیں گے؟۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ تاخیر سے اپیل پر میرے دلائل بس اتنے ہی تھے۔
جسٹس قاضی فائزنے نیب کے پراسیکیوٹر سے کہاکہ ہمارے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹی وی چینل پر حدیبیہ کیس کو زیربحث لایا گیا، جان بوجھ کر چینلز ایسے لوگوں کو بلاتے ہیں، کیااب ہم خود ہی ایکشن لیں گے تو معاملہ ٹھیک ہوگا؟ آپ پر الزام لگایا گیا، پیمرا سے رجوع کرتے یا درخواست دیتے۔ نیب کے پراسیکیوٹر نے کہاکہ مجھ پر الزام لگایا، میں نے معاف کیا۔ جسٹس قاضی فائز نے کہاکہ معاف نہ کیا کریں۔ اب وقت آنے والا ہے کہ سڑکوں پر فیصلے ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی تینوں جج یہ کہتے ہوئے اٹھ گئے کہ کچھ دیر میں فیصلہ سنایا جائے گا۔
آدھے گھنٹے بعد تین رکنی بنچ واپس آیا تو دن کے ساڑھے بارہ بج رہے تھے۔ جسٹس مشیرعالم نے کرسی پر بیٹھتے ہی کہا کہ ’وہ وجوہات جو بعد میں تحریرکی جائیں گی اپیل میں تاخیر معاف کرنے کی یہ درخواست خارج کی جاتی ہے، اسی وجہ سے حدیبیہ اپیل بھی خارج کی جاتی ہے‘۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے