میڈیائی وحشت کا توڑ
Reading Time: 4 minutesمیرے ٹی وی پروگرام کے لئے مواد جمع کرنے والے بچوں کو خیال آیا کہ کیوں نہ کیمرہ اور مائیک لے کر اسلام آباد کے بازاروں میں جایا جائے۔ صرف اس سوال کے ساتھ کہ وہاں موجود لوگ ’’ڈان‘‘ اخبار میں 6اکتوبر2016ء کی صبح چھپی خبر کی وجہ سے اُٹھے طوفان کے بارے میں کیا جانتے اور محسوس کرتے ہیں۔چند گھنٹوں کے بعد میری ٹیم جو تبصرے،جنہیں ہم ٹی وی کی زبان میں Vox Popیعنی’’آوازِ خلق‘‘کہتے ہیں،لے کر آئی تو Sounds on Tapeمخفف جس کا Sotsہوتا ہے،میں دیکھ اور سن کر بھونچکارہ گیا۔
30کے قریب لوگوں سے یہ سوال پوچھا گیا تھا۔ ان میں سے تقریباََ 10مناسب حد تک پڑھے لکھے بھی نظر آرہے تھے۔ ایک صاحب نے اپنا طویل تبصرہ بلکہ انگریزی زبان میں ریکارڈ کروایا۔ یہ الگ بات ہے کہ انگریزی بولتے ہوئے وہ یہ فیصلہ نہ کرپائے کہ اسے بولنے کے لئے پاکستانی لہجہ اختیار کریں یا انہیں سن کر آپ کو لندن یا نیویارک کی گلیاں یاد آجائیں۔
بہرحال کیمرے پر اپنی رائے دینے والوں میں سے کسی ایک نے بھی 6اکتوبر2016ء کی صبح چھپی خبر متعلقہ اخبار میں نہیں پڑھی تھی نہ اس کے بعد اُٹھے طوفان کی وجہ سے انہوں نے اسے انٹرنیٹ کے ذریعے ڈھونڈ کر دیکھنے کا تردد کیا۔سبھی نے اس ’’خبر‘‘کا ذکر ’’میڈیا‘‘ پر ہی سنا تھا۔
’’میڈیا‘‘ ہمارے ہاں صرف وہ ٹیلی ویژن نیٹ ورکس ہی سمجھتے جاتے ہیں جو دن کے چوبیس گھنٹے لوگوں کو باخبر رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کی دی ہوئی خبروں کا ’’تجزیہ‘‘ شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک عقل وخرد کی علامت بنے حق گو اور بلند آہنگ اینکروں کی بدولت سننے کو ملتا ہے۔ 6اکتوبر2016 کی صبح کو چھپی خبر کو ازخود پڑھ کر اپنی کوئی رائے بنانے کی بجائے میری ٹیم سے کیمرے پر بات کرنے والوں نے بھی ’’میڈیا‘‘ کی وساطت ہی سے اس کا تذکرہ سنا تھا۔
بغیر کسی استثناء کے وہ سب اس بات پر قائل نظر آئے کہ اعلیٰ سطح کا کوئی اجلاس وزیر اعظم کی صدارت میں ہوا تھا۔اس اجلاس میں فوجی نمائندے بھی موجود تھے۔ سول اور عسکری قیادت کے درمیان اس اجلاس میں ’’طالبان اور بھارت سے تعلقات‘‘ کے حوالے سے شدید ا ختلافات کا اظہار ہوا۔ وزیراعظم کے کسی مصاحب نے ان اختلافات کی تفصیل رپورٹر کو بتادی۔اس کی لکھی خبر اخبار میں چھپ گئی تو ’’پاکستان کی بہت بدنامی ہوئی‘‘۔ عسکری قیادت اس بدنامی پر تلملا گئی۔ اس نے مطالبہ کیا کہ تحقیقات کے ذریعے معلوم کیا جائے کہ ’’اندر کی بات‘‘ باہر کیسے آئی۔ طویل انتظار کے بعد پاکستانیوں کو بتایا گیا کہ ’’دوافسر‘‘ یعنی طارق فاطمی اور رائوتحسین اس خبر کو چھپوانے کے ذمہ دار تھے۔ کیمرے پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والوں کا مگر یہ بھی اصرار تھا کہ مذکورہ لوگ ’’اصل ذمہ دار‘‘ نہیں تھے۔ کم از کم 5افراد نے بلکہ تڑاخ سے مریم نواز شریف کا نام لے کر انہیں اس خبر کی اشاعت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کہ ’’انہیں بچانے‘‘ کے لئے مذکورہ افسران کو ’’قربانی کا بکرا‘‘ بنادیا گیا ہے۔
اسلام آباد کے چند بازارں میں لوگوں کو روک کر ان کے دل و دماغ میں بیٹھے تصورات کو ہوبہو رپورٹ کرنے کے بعد میرے لئے سب سے پہلے آپ کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈان اخبار میں 6اکتوبر2016کی صبح چھپی خبر کے حوالے سے میں ذاتی طورپر حقائق سے کافی باخبر ہوں۔ میں نے اس کے بارے میں ہوئی تحقیق اور تفتیش کے بارے میں بھی رپورٹنگ کا دھندا کافی عرصہ سے چھوڑدینے کے باوجود معلومات جمع کرنے کی بہت کوشش بھی کی۔ان ٹھوس وجوہات کی بناء پر میں بضد ہوں کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ کا اس خبر کے چھپنے سے قطعاََ کوئی واسطہ نہیں تھا۔اس خبر کے بارے میں بنائی تحقیقاتی کمیٹی نے جس میں ISIاورMIکے بہت قابل نمائندے بھی موجود تھے،کئی لوگوں سے کئی گھنٹوں تک بے تحاشہ سوالات پوچھے۔ کسی ایک شخص سے لیکن ایک بار بھی مریم نواز شریف کے حوالے سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا تھا۔
حقائق مگر اپنی جگہ اہم نہیں ہوتے۔ ان کے بارے میں بنا عمومی تاثر ہوتا ہے جسے انگریزی میں Perceptionکہا جاتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ اقتدار کے کھیل میں حقائق کے بجائے ان کے بارے میں موجود تاثر حتمی اور بسااوقات تخت یا تختہ والے فیصلے لینے کا باعث ہوتا ہے۔ کوئی پسند کرے یا نہیں،پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے صرف ’’میڈیا‘‘ یعنی 24/7چینل،خلق خدا کی ذہن سازی کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔بدقسمتی سے حقیقتوں کے بجائے اندھی نفرت اور عقیدت پر مبنی ان کے ’’تجزیے‘‘ لوگوں کے دلوں میں موجود غصے کو ہوا دے کر انہیں ہیجان میں مبتلا کر رہے ہیں۔ ہماری ہرنوع کی اشرافیہ اس ہیجان کا توڑ ڈھونڈنے میں قطعاََ ناکام نظر آرہی ہے۔
’’میڈیا‘‘ کے ذریعے انتشار وخلفشار کا فروغ اگر صرف پاکستان تک محدود ہوتا تو میں اس دھندے سے رزق کمانے کے باوجود دل پر پتھر رکھ کر اس کی بندش پر آمادہ ہوجاتا۔ بات مگر پاکستان تک ہی محدود نہیں۔ امریکہ تعلیم کے حوالے سے دُنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک مانا جاتا ہے۔دُنیا بھر میں اعلیٰ ترین تعلیم دینے والی 10نمایاں ترین یونیورسٹیوں میں سے کم از کم 6اسی ملک میں موجود ہیں۔ اخبارات بھی امریکہ میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں۔کتابیں پڑھنے کی عادت وہاں کے لوگوں میں متاثر کن حد تک نظر آتی ہے۔اس سب کے باوجود صرف ’’میڈیا‘‘ پر تعصبات کو تڑاخ سے بیان کردینے کی وجہ سے ٹرمپ جیسا مسخرہ وہاں کا صدر منتخب ہوگیا ہے۔
ہمارے ہمسایے میں موجود بھارت ’’میڈیا‘‘ کے حوالے سے ہمارے مقابلے میں بہت ’’پروفیشنل‘‘ سمجھا جاتا تھا۔ وہاں کی ’’پڑھی لکھی مڈل کلاس‘‘کو جمہوری نظام کے استحکام کی بنیادی وجہ بھی بتایا گیا۔ 2014میں لیکن وہاں ایک ہندوانتہا پسند بے پناہ اکثریتی ووٹوں کے ساتھ وزیر اعظم منتخب ہوگیا۔اس کے منتخب ہونے کے بعد سے بھارتی میڈیا میں ’’حرمتِ گائو‘‘کا بول بالا ہے۔اس ’’حرمت‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے بڑے شہروں کو ایک دوسرے سے ملانے والی شاہراہوں پر لاٹھی بردار فسادیوں کے غول مال بردار ٹرکوںکو روک کر ان کی تلاشی لیتے ہیں۔ان میں موجود کوئی مسلمان گائے لے کر اپنے گائوں یا دوسرے شہر جارہاہو تو اسے یہ ہجوم درندوں کی طرح لاٹھیوں،گھونسوں،ٹھڈوں اور پتھروں کے ذریعے موت کے گھاٹ اُتاردیتا ہے۔
’’حرمتِ گائے‘‘ کے حوالے سے بھڑکائی آگ کی شدت کو سمجھنا ہو تو انٹرنیٹ کھول کر فقط اس کہانی کو دیکھ لیں جو معروف اداکارہ کاجول کی ایک سیلفی سے شروع ہوتی ہے۔ان دنوں وہ خوف میں مبتلا ہوئی لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے میں ہلکان ہورہی ہے کہ اس نے گائے نہیں بلکہ بھینس کا گوشت کھایا تھا۔
’’میڈیا‘‘ کے ذریعے پھیلائی وحشت کا توڑ ہمیں ’’میڈیا‘‘ ہی کے ذریعے ڈھونڈنا ہوگا اور اس کے لئے ضرورت ہے تخلیقی ذہن اور لگن کی جو ان دنوں دُنیا بھر میں مفقود ہوتے نظر آرہے ہیں۔
بشکریہ نوائے وقت