کالم

عرصہ گزر گیا مقدمہ زیر التواء

اگست 21, 2017 4 min

عرصہ گزر گیا مقدمہ زیر التواء

Reading Time: 4 minutes

اٹھائیس جولائی کو پنامہ پیپرز مقدمے کا فیصلہ ہوا ۔ اگلے دن چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت ﴿کمرہ عدالت نمبر 1﴾ میں بیٹھا تھا، جائیداد کے تنازع کا کوئی مقدمہ زیر سماعت تھا، وکیل دلائل دے رہا تھا، چیف جسٹس نے وکیل کو مخاطب کرکے کہا کہ جو قانونی نکات درخواست میں اٹھائے گئے ہیں ان سے ہٹ کر دلائل نہ دیے جائیں کیونکہ عدالت درخواست کے قانونی نکات سے ہٹ کر فیصلہ کرنے کی مجاز نہیں، عدالتی ریمارکس سننے کے بعد میرے ذہین میں پہلا خیال آیا تو وہ پنامہ لیکس کے مقدمے کا تھا جہاں عدالت نے درخواست گزار کی معروضات، گزارشات اور استدعا سے ہٹ کے ایک قانونی نقطے پر منتخب وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیا، سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے یا غلط، یہ حقیقت ہے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد ہو چکا، نواز شریف فیصلے کو نہ ماننے کے باوجود گھر جا چکے ہیں، عدالتی فیصلے پر تنقید اور کہیں تعریف کا سلسلہ چل رہا ہے، پنامہ کیس فیصلے کو ایک طرف رکھ کر ماضی قریب میں عدالت عظمی میں کرپشن کے مقدمات اور ان کے فیصلوں کو یاد کریں تو بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پنامہ مقدمے میں ایسا بہت کچھ نیا ہوا جو ماضی میں بدعنوانی کے مقدمات میں نہیں ہوا ۔
دو ہزار سات میں محترمہ بے نظیر بھٹو اور سابق صدر پرویز مشرف کے درمیان ماضی کی کرپشن کو قانونی تحفظ دینے کا معائدہ ہوا ،جسے عرف عام میں این آر او ﴿قومی مفاہنتی آرڈیننس 2007﴾ کا نام دیا گیا، اسپیکر ایاز صادق کے مجوزہ یا مبینہ ریفرنس پر جو نام نہاد عدالتی محافظ منظر عام پر آئے، مارچ 2007 اور نومبر 2007 میں جب عدالتی نظام پر آمرانہ حملہ ہوا تو وہ محافظ عدلیہ مخالف تحریک کے روح رواں قافلے کا حصہ تھے، دسمبر 2007 میں محترمہ بے نطیر دہشت گردوں کے حملے میں شہید ہو گئی، فروری 2008 کے عام انتخابات کے پیپلز پارٹی نے مرکز میں حکومت قائم کی، جس کے ایک سال بعد تین نومبر کے اقدام کے نتیجے میں معزول عدلیہ بحال ہو ئی تو پیپلز پارٹی کے این آر او کو عدالت عظمی میں چیلنج کر دیا، درخواست میں الزام لگا گیا کہ ایک قانون کے ذریعے ماضی کی اربوں کی کرپشن کو قانونی قرار دیکر بد عنوان عناصر کو کلین چٹ دے دی گئی، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے درخواست پر لارجر بینچ تشکیل دیکر سماعت کی اور این آر او کو بنیادی حقوق کے منافی قرار کالعدم قرار دے دیا، عدالت نے وفاقی حکومت کو حکم دیا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے سوئس حکام کو آصف علی زرداری کی بد عنوانی کے مقدمات سے دستبردار ہونے کا لکھا گیا خط واپس لیا جائے اور 60 ملین ڈالرز کی رقم واپس لانے کے اقدامات کیے جائیں، عدالت کا فیصلہ آیا، اربوں کھربوں کی کرپشن کے مقدمہ کے فیصلے میں کسی سیاسی رہنما یا آمر کو گاڈ فادر یا سیسلین مافیا قرار نہیں دیا گیا، پیپلز پارٹی حکومت نے عدالت کے خط واپس لینے کے حکم پر عمل نہ کیا، فیصلے پر عمل در آمد کے لیےجسٹس آصف سعید کھوسہ کی سر براہی میں خصوصی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا، سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا، عدالتی سزا کے بعد یوسف رضا گیلانی نا اہل قرار پائے تو پیپلز پارٹی نے راجہ پرویز اشرف کو نیا وزیر اعثظم منتخب کر لیا ۔
ادھر راجہ پرویز اشرف نے نئے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا تو کچھ عرصے بعد عدالتی فیصلے پر عمل در آمد یقینی بنانے کے لیے راجہ پرویز اشرف کو نوٹس جاری کرکے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے طلب کر لیا، راجہ پرویز اشرف ہمراہ وکیل فارق ایچ نائیک، وسیم سجاد عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور سوئس حکام کو خط لکھنے کے عدالتی حکم پر اپنا موقف پیش کیا، راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران ایسے مراحل بھی آئے جب جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فاروق ایچ نائیک اور وسیم سجاد کو چمبر میں بلایا، وہاں خط لکھنے کے معاملہ پر کیا بات چیت ہوئی، اس بارے میں کوئی نہیں جانتا، سوائے ان لوگوں کے جو معزز جج کے چمبر میں موجود تھے، پھر راجہ پرویز اشرف نے عدالتی حکم کی تعمیل میں سوئس حکام کو خط لکھ دیا، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف توہین عدالت کا معاملہ رفع دفع ہو گیا، ان کو جاری کیا گیا توہین عدالت کا شوکاز نوٹس واپس لے لیا گیا ۔
سوئس حکام کو خط لکھنے کے بعد سیاسی منظر نامہ پر چھائے غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے، ابھی کچھ عرصہ گزرا تھا کہ ایک نیا انکشاف ہوا، انکشاف یہ ہوا کہ عدالتی حکم پر راجہ پرویز اشرف نے جو خط سوئس حکام کو لکھا تھا، اس خط کو ایک اور خط سوئس حکام کو بھجوا کر غیر موثر کر دیا گیا، معاملہ پھر عدالت عظمی میں پہنچا، سیکرٹری قانون یاسمین عباسی عدالت میں پیش ہوئی، ان پر الزام تھا کہ پہلا خط لکھنے کے بعد اسے غیر موثر کرنے کے لیے دوسرا خط انہوں نے لکھا، اور اس سارے معاملے سے وزارت قانون کے دیگر حکام کو بے خبر رکھا گیا، 2012 کے بعد 2017 آگیا لیکن سوئس حکام کو خطوط لکھنے کا معاملہ ابھی تک التوا میں ہے، عدالت عظمی نے بنکوں سے قرض معاف کرانے کے معاملے پر کمیشن تشکیل دیا، جس کی رپورٹ عدالت کو وصول ہو چکی ہے، کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس نے، کس سال، کتنا قرض لیا، کب معاف کرایا، عرصہ گزر گیا مقدمہ زیر التواء ہے، قرض معافی کے مقدمہ میں کمیشن کی تشکیل کے فیصلے میں کسی کو مافیا یا ڈان کا خطاب نہ ملا ۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے