پاکستان

بہت سی چیزیں پہلی بار ہو رہی ہیں

جنوری 30, 2018 2 min

بہت سی چیزیں پہلی بار ہو رہی ہیں

Reading Time: 2 minutes

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا ہے کہ ہمارے سامنے بنیادی معاملہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کے تحت نااہلی کا ہے، ہم نے اسی پر وکیلوں کو تفصیل سے سننا ہے، اگر نوازشریف نہیں آتے تب بھی دوسروں کو سن کر فیصلہ دیں گے، بغیر سنے فیصلہ دینے سے بہتر ہوتاہے کہ سب کا موقف سن کر تشریح کی جائے۔
عدالت کے تین رکنی بنچ کے سامنے دلائل میں وکیل بابراعوان نے کہا کہ اس کیس میں فیصلے سے پوری قوم نے متاثرہوناہے، یہ آنے والے سارے وقتوں کیلئے ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جہانگیر ترین یہاں بیٹھے ہیں، نوازشریف کو بھی اس لیے نوٹس کیا ہے، انصاف فراہم کرنے کا یہ اصول ہے کہ سب کو سنا جائے جو متاثرہ ہیں، ہم نے نوٹس بھیجنا ہے، کوئی آئے نہ آئے، اس کی مرضی ہے۔بابراعوان نے کہاکہ یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ جس نے درخواست بھی نہیں دی اس کو بھی نوٹس جاری کرکے سپریم کورٹ خود سے موقع دے رہی ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ بہت سی چیزیں پہلی دفعہ ہورہی ہیں۔ بابر اعوان نے کہاکہ عدالت صرف آئین کی تشریح کرسکتی ہے، اس میں ترمیم کرنے کی مجاز نہیں، پہلے بھی آئین میں ایک نام آ گیا تھا، بڑی مشکل سے ستائیس سال بعد نکالا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جی، ضیا ءالحق کا نام آئین میں آگیاتھا۔ بابر اعوان نے کہا کہ عدالت آرٹیکل چار کو بھی دیکھ لے جو بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس کا بنیادی حقوق سے تعلق نہیں۔ بابراعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے اپنے دس فیصلوں میں اس آرٹیکل کے تحت بنیادی حقوق کی بات کی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ہم نے کبھی ایسا نہیں کہا، طریقہ کار (ڈیو پراسیس) کو بنیادی حق قرار دیا ہے۔ کیا آئین کی تشریح کرتے وقت اس کو بطور ٹول(آلہ) استعمال کیا جا سکتا ہے کہ ’ریڈان‘ کیاجائے۔ بابراعوان نے کہاکہ ایسا نہیں کیا جاسکتا، اسی کی تشریح ہوگی جو لکھا ہوا ہے، آئین کے’کامہ‘ کو بھی تبدیل نہیں کیا جاسکتا، فل اسٹاپ، کومہ کیلئے پارلیمان سے رجوع کرنا پڑے گا۔
بابراعوان نے کہاکہ آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف کی تشریح کرناہے تو فل کورٹ تشکیل دی جائے۔ عدالت پرویزمشرف کی نااہلی کا فیصلہ بھی مدنظر رکھے جس میں کہاگیاکہ آرٹیکل چھ ان سب پر لاگو ہوتا ہے جنہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ایمرجنسی پر ساتھ دیا، وہ تمام جج بھی نااہل ہوجاتے ہیں جنہوں نے حلف اٹھایا تھا، اس کو بھی دیکھا جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہاکہ آپ کبھی اھر کبھی ادھر سے کیس ، فیصلے اور ان کے حوالے پکڑتے ہیں اور کہتے ہیںکہ ان سب کے بھی فیصلے کردیں۔بابر اعوان نے کہاکہ جب آپ نے پوری قوم کہاہے تو اس میں مجرم بھی شامل ہیں، جج بھی شامل تھے۔ ندیم احمد کیس میں اٹھارویں ترمیم پر سترہ جج بیٹھے تھے، سندھ ہائیکورٹ بارکیس میں چودہ جج بیٹھے تھے اور پی سی او جج فارغ ہوئے تھے، بھٹو صدارتی ریفرنس کی سماعت بھی نہیں ہوئی، وہ فل کورٹ بھی ہونا چاہیے، آئین کی تشریح کے حالیہ کیس میں بھی سترہ جج بٹھادیں کیونکہ پہلے ہی اس عدالت کے سات جج باسٹھ تریسٹھ پر اپنا فیصلہ دے چکے ہیں، اب یہ پانچ ججوں کا بنچ کیسے سنے گا؟۔چیف جسٹس نے کہا کہ پوری سپریم کورٹ نہیں بٹھاسکتے،یہی پانچ جج سنیں گے۔ پرانے سارے مقدمات جو التواءمیں ہیں ان کو بھی لگائیں گے۔ اس کے ساتھ ہی عدالت میں موجود وکیل سے کہاکہ لینڈ ریفارمز والا کیس بھی لگاتے ہیں۔ (جاگیرداری نظام کے خاتمے اور زمینوں کی تقسیم کے اس مقدمے کی سماعت دہائیوں سے نہیں ہوئی)۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے