سو سال بعد کیس کا فیصلہ
Reading Time: 3 minutesوراثت کی تقسیم شریعت کے مطابق ہوگی ۔ سپریم کورٹ نے قیام پاکستان سے بھی تیس سال پہلے شروع ہونے والے جائیداد کے تنازعے کا فیصلہ سنادیا ہے ۔ پاکستان کی عدالتوں میں خیرپور ٹامیوالی کی 5600 کنال اراضی کا کیس 1969 میں شروع ہوا ۔ اب سپریم کورٹ نے 49 سال بعد مقدمے کا بالآخر فیصلہ سنا دیا ہے ۔
ٹرائل کورٹ نے 1970 میں فیصلہ کیا۔ ہائی کورٹ نے 1971 میں دائر اپیل پر 1982 میں مقدمہ دوبارہ ٹرائل کورٹ بھیج دیا ۔ ٹرائل کورٹ سے فیصلہ ہونے پر اپیل دوبارہ 1989 میں ہائی کورٹ میں دائر ہوئی ۔ سپریم کورٹ میں ہائی کورٹ فیصلے پر 2005 میں درخواست دائر کی گئی ۔ اور سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنے میں 13 سال لگ گئے ۔ عدالت نے 5600 کنال اراضی شریعت کے مطابق ورثا میں تقسیم کرنے کا حکم دے دیا ہے ۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اپیل کی سماعت مکمل کر کے فیصلہ دیا ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کسی کو بھی شرعی وراثتی حصے سے محروم نہیں کر رہی ۔
سپریم کورٹ سے پاکستان 24 کے نامہ نگار کے مطابق عدالت کے باہر مقدمے کا پس منظر کا بتاتے ہوئے ایک درخواست گزار نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور کی تحصیل خیرپور ٹامے والی کے رہائشی محمد نصراللہ کی پڑدادی روشنائی بیگم جو اس وقت انڈین صوبے راجستھان میں رہائش پذیر تھیں، نے جائیداد کی تقسیم کے حوالے سے اپنے بھائی شہاب الدین کے خلاف ایک درخواست سنہ 1918 میں انڈیا کی سول عدالت میں دائر کی تھی۔
بتایا گیا کہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے یہ درخواست راجستان میں ہی زیر سماعت رہی اور پاکستان کے قیام کے بعد اس جائیداد کے بدلے میں جو بھارت میں رہ گئی تھی، پاکستانی حکومت کی طرف سے ضلع بہاولپور اور ضلع مظفر گڑھ کے علاقے میں زرعی اراضی کے 36 ہزار یونٹ فراہم کیے گئے جو کہ 56 مربے بنتے ہیں۔ وراثت کے حصول کے لیے سرگرم درخواست گزاروں نے بتایا کہ قیام پاکستان سے پہلے ہندوستان میں یہ قانون تھا کہ اگر کوئی شخص فوت ہو جائے تو اس کے بعد اس کی بیوہ چھوڑی ہوئی جائیداد سے مستفید تو ہو سکتی ہے لیکن اس کو نہ تو اپنے نام کروا سکتی ہے اور نہ ہی اس کو فروخت کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
جائیداد کا قبضہ رکھنے والے شہاب الدین کی وفات کے بعد ان کی بیوہ امام سین نے مقدمہ پاکستان کی عدالت میں معاملہ زیر سماعت ہونے کے باوجود تمام جائیداد اپنے نام کروالی تھی۔ کیس سول جج، سینیئر سول جج، ایڈشنل سیشن جج اور سیشن جج کی عدالتوں میں زیر سماعت رہا، جس میں فیصلہ کبھی ایک کے حق میں آیا اور کبھی دوسرے کے حق میں۔ پھر یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے بہاولپور بینچ میں چلا گیا جہاں ان درخواستوں کی سماعت ہوئی اور عدالت عالیہ کو کسی نتیجے پر پہنچنے میں 18 سال لگ گئے۔
ہائی کورٹ کے اٹھارہ سال بعد دیے گئے فیصلے سے بھی فریقین نے اتفاق نہیں کیا اور اس کے خلاف سپریم کورٹ میں پہنچ گئے۔ متاثرہ فریق نصراللہ کے مطابق لاہور ہائی کورٹ بہاولپور بینچ کے اس فیصلے کو دونوں فریقوں نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں سنہ 2005 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس وقت زمین شہاب الدین کے پڑ پوتے محمد فیاض کے استعمال میں ہے اور فریقین الزام لگاتے ہیں کہ اُنھوں نے اس جائیداد کا ایک بہت بڑاحصہ فروخت کر دیا ہے۔ نصراللہ کے مطابق جائیداد کی تقسیم کے مقدمے میں پہلے صرف دو افراد فریق تھے لیکن اب یہ تعداد بڑھ کر ایک ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔
مقدمے میں ایک درخواست گزار سجاد احمد نے پاکستان 24 سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا ۔ سجاد احمد نے بتایا کہ ایک طویل عرصے بعد فیصلہ ہونے پر مطمئن ہیں ۔ کہا کہ ہر فریق نے ایک سے زیادہ وکیل رکھے ہوئے تھے اور ہر سماعت پر کسی وکیل کی مصروفیت یا کسی فریق یا اس کے کسی رشتہ دار کے پیش نہ ہونے سے مقدمہ ختم نہیں ہو رہا تھا ۔
گزشتہ سال اس کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ایک فریق کے وکیل کی عدم دستیابی پر ملتوی کی تو دیگر درخواست گزاروں نے مایوسی کا اظہار کیا اور طنز کے طور پر عدالت کے باہر کیس کے ننانوے سال پورے ہونے پر کیک کاٹا تھا جس کی میڈیا میں بہت تشہر ہوئی تھی اور سوشل میڈیا کے صارفین نے سپریم کورٹ کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔