پاکستان24 عالمی خبریں

امریکہ نے ’ہواوے فون‘ پر پابندی کیوں لگائی؟

مئی 17, 2019 4 min

امریکہ نے ’ہواوے فون‘ پر پابندی کیوں لگائی؟

Reading Time: 4 minutes

امریکی حکومت نے چین کی فون بنانے والی کمپنی ہواوے ٹیکنالوجیز لمیٹڈ کو باضابطہ طور پر بلیک لسٹ کر دیا ہے ۔ فوری طور پر نافذ العمل اس پابندی کے بعد ہواوے کے لیے امریکی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنا انتہائی مشکل ہو جائے گا ۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس سے قبل بدھ کو امریکی محکمہ تجارت نے کہا تھا کہ وہ ہواوے ٹیکنالوجیز اور اس سے منسلک 70 کمپنیوں کو اس فہرست میں شامل کر رہا ہے جن کو اپنی مصنوعات کے پارٹس اور ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے امریکی حکومت کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے ۔

محکمہ تجارت کے سیکرٹری ولبور راس نے بیان میں کہا تھا کہ اس فیصلے کو صدر ٹرمپ کی حمایت حاصل ہے تاکہ امریکی ٹیکنالوجی کو ایسی غیر ملکی کمپنیوں کے ہاتھوں استعمال ہونے سے روکا جا سکے جو اس کی قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی مفادات کے لیے خطرہ ہوں ۔

چین امریکہ تجارتی تنازع نے پوری دنیا کو متاثر کیا ہے

قبل ازیں چین کے اعلی حکام کے ساتھ اہم تجارتی مذاکرات کے بعد امریکی سیکرٹری خزانہ سٹیون نے بدھ کو کہا تھا کہ وہ بعض امور پر مزید بات چیت کے لیے جلد چین کا دورہ کریں گے۔

خیال رہے کہ بدھ کو صدر ٹرمپ نے ایک ایسے انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت امریکی کمپنیوں پر ایسے ٹیلی کام آلات خریدنے پر پابندی عائد کی گئی جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والی کمپنیوں نے بنائے ہوں۔

کاروباری امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق اس صدر ٹرمپ کے حکم نامے میں کسی ملک کا نام نہیں لکھا گیا تاہم امریکی حکام ماضی میں چینی کمپنی ہواوے کو خطرہ قرار دے اپنے اتحادیوں کو اس کے فائیو جی نیٹ ورک استعمال نہ کرنے کے مشورے دے چکے ہیں ۔

امریکی سینٹ اس معاملے پر اپنے حکام سے تفصیلات حاصل کر رہی ہے جہاں سیکرٹری تجارت نے گذشتہ ہفتے چینی حکام کے ساتھ  دو روزہ اعلی سطح مذاکرات کے بعد سینٹ کی کمیٹی کو بات چیت کے مثبت ہونے کا بتایا تھا ۔

تجارت کے سیکرٹری نے سینٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ ان کو توقع ہے کہ اس بات چیت کو آگے بڑھانے کے لیے وہ مستقبل قریب میں بیجنگ جائیں گے ۔

یاد رہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے چین کے سامان پر تجارتی ٹیرف بڑھانے کے بعد چین نے بھی جوابی کارروائی کی ۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی تناؤ نے عالمی سٹاک مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں ۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکی صدر ٹرمپ کا چین کے بارے میں رویہ اتار چڑھاؤ کا شکار ہے ۔ گذشتہ ہفتے انہوں نے کہا تھا کہ ان کے چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ غیر معمولی تعلقات ہیں اور وہ ان سے اگلے ماہ جاپان میں ہونے والے جی ۔ ٹوئنٹی اجلاس میں ملاقات کریں گے ۔

اسی دوران صدر ٹرمپ نے چین پر زور دیا کہ وہ زیادہ سے زیادہ امریکی فارمز کی مصنوعات خریدے ۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ امریکی زرعی مصنوعات پر چین نے درآمدی ٹیرف بڑھایا ہے جس کے بعد صدر ٹرمپ کی حمایت کرنے والے کاشت کار پریشانی کا شکار ہیں ۔

امریکی محکمہ تجارت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس نے چین اور دیگر تجارتی شراکت داروں کی جانب سے ٹیرف بڑھانے کے بعد متاثرہ کسانوں کو سنہ 2018 میں امدادی پروگرام کے تحت 8 ارب 52 کروڑ ڈالر دیے ۔

ٹرمپ انتظامیہ نے چین کے ٹیرف بڑھانے سے متاثرہ کسانوں کی مدد کرنے کے لیے 12 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے ۔

تجارتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ کے کئی ممالکو بھی چین کے غیر شفاف تجارتی طریقہ کار کے ناقد اور اس سے ناخوش ہیں مگر صدر ٹرمپ اس معاملے کو ’سب سے پہلے امریکہ‘ کے ایجنڈے کے تحت  چین سے اپنے ملک کو بچانے کی کوشش میں کھل کر بات کرتے ہیں ۔

چین کے ساتھ تجارتی تنازع کا شکار امریکہ اب خطے میں موجود پڑوسی ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی کوششیں تیز کر رہا ہے ۔ اس سلسلے میں امریکی سیکرٹری خزانہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ سٹیل اور ایلومینیم کی تجارت پر عائد ٹیرف کا تنازع حل کرنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے ۔

صدر ٹرمپ نے جمعہ کو درآمدی کاروں اور ان کے پارٹس پر ٹیرف بڑھا کر 25 فیصد کرنا کا اعلان کرنا تھا مگر اب یہ فیصلہ چھ ماہ کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے ۔

درآمدی کاروں پر پچیس فیصد تک ٹیرف عائد کرنے سے جاپان اور جرمنی پر تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔

یاد رہے کہ چین اور امریکہ میں تجارتی تنازع حل کرنے کے مذاکرات میں تعطل آنے کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے گذشتہ ہفتے چین کی 200 ارب ڈالرز تک کی درآمدی اشیا پر ٹیرف دس فیصد سے بڑھا کر پچیس فیصد کر دیا تھا ۔

چین نے بھی اس کے جواب میں 60 ارب ڈالر تک کی امریکی درآمدی اشیا پر ٹیرف بڑھانے کا اعلان کیا ۔

عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی صدر چینی ہم منصب سے آئندہ ماہ ملاقات کے بعد چین سے درآمد کی جانے والی مزید تین سو ارب ڈالرز کی اشیا پر 25 فیصد تک ٹیرف عائد کر سکتے ہیں جبکہ ٹرمپ نے چین سے آنے والی ہر شے پر ٹیرف عائد کیے جانے کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا ۔

ادھر چین نے کہا ہے کہ وہ امریکی دباؤ میں نہیں آئے گا تاہم عالمی معیشت کی خبریں دینے والے اداروں کے مطابق امریکی ٹیرف بڑھانے کے اعلان کے بعد اس کی انڈسٹری کی پیداوار میں کمی دیکھی گئی ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے