ہانگ کانگ چین کے خلاف امڈ آیا
Reading Time: 3 minutesچین کے خلاف ہانگ کانگ کے لاکھوں شہری گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آئے اور زندگی کو معطل کر دیا۔ احتجاج کے منتظمین کے مطابق تعداد 20 لاکھ تھی جبکہ حکام نے کہا ہے کہ 3 لاکھ کے لگ بھگ لوگوں نے سیاہ لباس پہن کر احتجاج کیا ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق ہانگ کانگ کے شہری چین کو ملزمان کی حوالگی کے متنازع قانون کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
مجوزہ قانون کے مطابق چین ہانگ کانگ سے سنگین جرائم میں ملوث مطلوب ملزمان کو اس کے حوالے کرنے کی درخواست کر سکتا ہے اور ان کے خلاف چین میں ہی مقدمات چلائے جا سکیں گے۔
ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام کی جانب سے بل کی معطلی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے احتجاج میں حصہ لیا۔
کیری لام نے اتوار کے روز بل پیش کرنے پر معذرت کر لی تھی۔ بہت سے مظاہرین جنھیں ہانگ کانگ پر چین کے اثر ورسوخ بڑھنے کا خدشہ ہے، وہ کیری لام سے استعفی بھی مانگ رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس قانون کو صرف معطل ہی نہیں بلکہ ختم بھی کیا جائے۔
اتوار کے روز کیا گیا یہ احتجاج پرامن رہا جس کی ایک ویڈیو میں لاکھوں مظاہرین ایمبولینس کو راستہ دیتے بھی دیکھے گئے۔ خیال رہے کہ بدھ کے روز مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے تھے۔
احتجاج دوپہر کو وکٹوریا سکوائر میں شروع ہوا جس میں زیادہ تو لوگوں نے سیاہ لباس زیب تن کر رکھے تھے۔
واضح رہے کہ گذشتہ بدھ کو ہونے ولے احتجاج کو پولیس نے فساد کا نام دیا تھا، جس کی سزا دس سال تک قید ہے۔
چیف ایگزیکٹو کیری لام کی جانب سے بل کو معطل کرنے کے فیصلے پر بہت سے مظاہرین کو شکوک و شہبات تھے۔
برطانیہ نے ہانگ کانگ 1997 میں چین کو واپس کیا تھا اور اب یہ چین کا حصہ ہونے کے باوجود ایک نیم خودمختار ریاست ہے جو چین کے ساتھ ایک ملک دو نظام کے اصول پر دنیا کے نقشے پر منفرد شناخت رکھتی ہے۔
ملزمان کی حوالگی کی تجویز اس وقت سامنے آئی جب گذشتہ برس فروری میں ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے تائیوان میں مبینہ طور پر اپنی حاملہ گرل فرینڈ کو قتل کر دیا تھا۔ گزشتہ سال وہ شخص تائیوان سے فرار ہو کر ہانگ کانگ آ گیا تھا۔
ہانگ کانگ کی آبادی کی اکثریت چین کے نظام انصاف کو ظالمانہ سمجھتی ہے اس لیے نئے قانون کے تحت کسی بھی شہری کو چین کے حوالے کرنے کی مخالفت میں سڑکوں پر نکلی ہے۔
۔