توہین رسالت کیس، ملزم 20 سال بعد بری
Reading Time: 2 minutesپاکستان کی سپریم کورٹ نے ایک ایسے ملزم کو بری کرنے کا فیصلہ دیا ہے جس پر 20 سال قبل توہین رسالت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے فیصلے میں کہا ہے کہ ملزم وجیہہ الحسن پر توہین پر مبنی خطوط لکھنے کا الزام ثابت نہیں کیا جا سکا۔
مقدمے میں سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے ملزم وجیہہ الحسن کو سزائے موت سنائی تهی تاہم سپریم کورٹ نے سزا کے خلاف اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ استغاثہ کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
ملزم وجیہہ الحسن نے سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تهی۔ وکلاء نے ویڈیو لنک کے ذریعے لاہور رجسٹری سے اسلام آباد میں بیٹھے بینچ کے سامنے دلائل دیے۔
مقدمے کا پس منظر بتاتے ہوئے سرکاری وکیل نے کہا کہ ایک وکیل اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ نے وفاقی شریعت کورٹ میں درخواست دی تھی کہ توہین رسالت کی سزا عمر قید نہیں سزائے موت ہونی چاہیے جس پر فیڈرل شریعت کورٹ نے توہین رسالت کی سزا، سزائے موت کر دی۔
سرکاری وکیل نے کہا کہ شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد اسماعیل قریشی ایڈوکیٹ کو دھمکی آمیز خطوط موصول ہونے شروع ہوئے جن میں توہین رسالت پر مبنی الفاظ استعمال کیے گئے۔
سرکاری وکیل محمد امجد رفیق کے مطابق 1998 میں موصول ہونے والے خطوط حسن مرشد مسیح نامی شخص کی جانب سے لکهے گئے، اسماعیل قریشی نے غصے میں کچه خطوط جلا دیے تاہم جب خطوط کا سلسلہ بند نہ ہوا تو اسماعیل قریشی نے اقبال ٹائون تهانے میں ایف آئی آر درج کروائی۔
سرکاری وکیل کے مطابق ملزم نے اپنی کمپنی کے منیجر محمد وسیم سے ذکر کیا کہ اس نے اسماعیل قریشی کو خط لکهے ہیں۔ ملزم نے محمد وسیم اور محمد نوید کے سامنے خط لکهنے کا اعتراف کیا اور کہا کہ وہ ملزم کی اس معاملے سے جان چهڑائیں۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ خط تو حسن مرشد مسیح کے نام سے لکهے گئے تهے جبکہ ملزم تو وجیہہ ہے۔ وکیل نے بتایا کہ ملزم وجیہہ الحسن نے خط میں اپنا نام حسن مرشد مسیح لکها تها۔
جسٹس یحیا آفریدی نے کہا کہ ملزم تو کہتا ہے کہ اس نے خط نہیں لکهے اور وہ خود کو مسلمان قرار دیتا ہے۔
کیس کے مدعی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم نے دونوں گواہان کے سامنے اعتراف کیا پہلے اس نے عیسائی مذہب اپنایا پهر قادیانی ہو گیا۔
جسٹس شاہ نے کہا کہ ملزم نے صرف یہ نہیں کہا کہ وہ مسلمان ہے اس نے کہا کہ وہ آخری نبی ص کو بهی مانتا ہے۔
وکیل نےطکہا کہ توہین رسالت کی سزا، سزائے موت ہے۔
جسٹس سجاد شاہ نے کہا کہ آسیہ بی بی کیس میں یہ بات طے ہو چکی ہے کہ توین رسالت کی سزا، سزائے موت ہے۔ آپ صرف یہ ثابت کریں جس نے خط لکهے وہ یہی ملزم تها۔
وکیل نے کہا کہ مجسٹریٹ کے سامنے ملزم کی ہیڈ رائٹنگ لی گئی۔ رائٹنگ ایکسپرٹ نے رپورٹ دی کے ملزم کی لکهائی خط سے میچ کرتی ہے۔
جسٹس شاہ نے کہا کہ ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ نے یہ کہا کہ غالب امکان ہے کہ ملزم کی رائٹنگ اس خط سے مشابہت رکهتی ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ جسٹس یحیا آفریدی اور جسٹس قاضی محمد آمین بهی بینچ کا حصہ تهے ۔