جسٹس فائز کیس: تحلیل شدہ بینچ بحال
Reading Time: 3 minutesرپورٹ: ج ع
پاکستان کی سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس کے خلاف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وکلا تظیموں کی آئینی درخواستوں پر سماعت کرنے والا دس رکنی بینچ رات کو تحریری حکم نامے کے ذریعے بحال کر دیا ہے۔
اس سے قبل پیر کی صبح سماعت کے دوران سپریم کورٹ کا بینچ ایک مرتبہ پھرتحلیل کر دیا گیا تھا جس پر وکلا نے سخت تحفظات ظاہر کیے تھے۔
عدالت نے بینچ کی دوبارہ تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس بجھوایا تھا۔
سپریم کورٹ میں پیر کو ایک نئے جج جسٹس امین الدین خان نے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا ہے اور وکلا نے دبے لفظوں میں کہا ہے کہ ان کو بینچ میں شامل کرانے کے لیے فل کورٹ بینچ تحلیل کیا گیا ہے۔
وکیل رشید اے رضوی کے مطابق شاید کسی جج کو اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل اس مقدمے کو نمٹائے جانے کی جلدی ہے۔
اس سے قبل جسٹس اعجا ز الااحسن اور جسٹس سردار طارق مسعود پر اعتراض کے بعد بنچ سے علیحدگی کے سبب بینچ تحلیل ہو گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں جسٹس عمرعطاءبندیال کی سربراہی میں دس رکنی بنچ کی بجائے نو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔ بنچ کے رکن جسٹس مظہر عالم میاں خیل بنچ میں موجود نہیں تھے۔
سماعت کا آغاز ہوا تو بنچ کے سربراہ جسٹس عمر عطاءبندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہم مقدمے کو چلانا چاہتے ہیں تاہم بنچ کے ایک رکن (جسٹس مظہر عالم میاں خیل ) فیملی میں فوتگی کے سبب موجود نہیں ہیں، بنچ کے رکن (جسٹس مظہر عالم میاں خیل ) طویل عرصے تک دستیاب نہیں ہوں گے، ہم نے طے کیا ہے کہ بنچ دوبارہ تشکیل دیا جائے، بنچ کی تشکیل کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بجھوا رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک نے کہا ”میں بنچ کی تشکیل سے متعلق کچھ گذارشات کرنا چاہتا ہوں، معاملے پر فل کورٹ ہی تشکیل دیا جائے، میں اپنی گذارشات فل کورٹ کے سامنے رکھوں گا۔“
جسٹس عمر عطاءبندیال نے کہا ”بنچ تشکیل دینا چیف جسٹس کا اختیار ہے ، ہم اس حوالے سے اگلے ہفتے میٹنگ کریں گے، ہم نے اخلاقی طور پر بہتر سمجھا عدالت کو آگاہ کیا جائے۔“
اس کے بعد بنچ کے جج صاحبان تحریری آرڈر لکھوائے بغیر اٹھ کر کمرہ عدالت سے چلے گئے۔
قانونی ماہرین اور وکلاء رہنماؤں نے بنچ کی دوبارہ تشکیل پر تحفظات کا اظہارکیا ہے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل امجد شاہ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا بغیر کسی گراﺅنڈ کے بنچ تحلیل کر دیا گیا ،اس بنچ کے علاوہ اگر کوئی دوسرا بنچ بنا اور اُس نے مقدمے سنا تو ہم اعتراض اٹھائیں گے ، ہم چاہتے ہیں یہی بنچ کیس سنے ، آئندہ ہفتے بار کا انتخاب ہے اگر کیس سماعت کیلئے مقر ر ہوا تو ہم التواء کی درخواست دائر کریں گے۔
ایڈووکیٹ حامد خان نے کہا ایک روایت ہے کہ جب ایک بنچ سماعت کرتا ہے تو پورا کیس وہی سنتا ہے ،یہ فل کورٹ بنایا گیا چیف جسٹس کے پاس اختیار نہیں کوئی دوسرا بنچ بنائے، ایسی کوئی مجبوری نہیں ہے اگر جج نہیں ہے تو انتظار کیا جاسکتا ہے ، سپریم کورٹ کے فل کورٹ کا آرڈر موجود ہے یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔
سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اور سینئر وکیل ایڈووکیٹ رشید اے رضوی نے کہا افتخار محمد چوہدری کیس دو ماہ پانچ دن چلا ، پہلے دن سے ہمیں لگ رہا ہے ان جج صاحبان کا بس چلے تو یہ دو گھنٹے میں فیصلہ کر دیں۔
رشید اے رضوی نے کسی کا نام لیے بغیر مزید کہا کیا کسی کی ریٹائرمنٹ سے پہلے فیصلہ دینا چاہتے ہیں ، ججوں کا کنڈکٹ نظر آرہا ہے انصاف نہیں ہوگا ۔
ایڈووکیٹ علی احمد کرد نے کہا اس کیس میں کیا جلدی ہے سمجھ نہیں آرہی، بنچ تحلیل کرنے کی کسی نے استدعا نہیں کی ۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل ایڈووکیٹ رشید اے رضوی نے میڈیا ٹاک میں بھٹو قتل کیس اپیل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا اُس کیس میں بنچ کے رکن جسٹس وحید الدین بیمار ہوگئے، اکیس دن تک بنچ نے انتظا رکیا جب اُن کی طبیعت نہ سنبھلی توبنچ دوبارہ تشکیل دیا گیا۔