حکومت نے جسٹس فائز کے مقدمات سننے پر اعتراض کر دیا
Reading Time: 3 minutesسپریم کورٹ میں فاٹا، پاٹا اصلاحات کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی بنچ میں موجودگی پر اعتراض اٹھا دیا۔ کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور نے جسٹس قاضی فائز عیسی کا نام لیے بغیر کہا کہ جج کی موجودگی میرے لیے بے چینی کا باعث ہے، ایک کیس میں مجھ سمیت وزیراعظم، صدر مملکت، وزراء پر تعصب کا الزام لگایا، فوج پر دائرہ اختیار سے تجاوز کا الزام لگایا گیا۔
اٹارنی جنرل انور منصور غداری کیس میں پرویز مشرف جبکہ فارن فنڈنگ کیس میں تحریک انصاف کے وکیل رہ چکے ہیں۔
رپورٹ: ج ع
سپریم کورٹ نے فاٹا کے فوجی حراستی مراکز اور ان میں موجود قیدیوں کی فہرست کل تک فراہم کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ انسانی زندگیوں کا معاملہ ہے، کوئی قیدی کم نہ ہوجائے، اگر تو یہ حراست قانونی ثابت ہوئی تو آپ جانیں اور قیدی۔ اگر حراست غیر قانونی ہوئی تو معاملے کا فیصلہ عدلیہ کرے گی، یہ شہریوں کی آئینی آزادی کا معاملہ ہے، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے.
چیف جسٹس نے پوچھا کہ بتایا جائے کہ سول انتظامیہ کی مدد کے لیے آنے والی فوج کن اختیار کے تحت کام کرتی ہے، کیا کسی کو حراست میں رکھنے کا حکم صوبائی انتظامیہ کے علاوہ آرمی کا کوئی افسر بھی دے سکتا ہے؟ کسی کو حراست میں رکھنے کی مدت زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹے ہے۔ 24 گھنٹے کے بعد قیدی کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے۔ دہشتگردی کے کیسز میں یہ مدت 3 ماہ ہے۔ اس معاملے میں صوبائی اختیارات کے ساتھ عدالتی اختیارات بھی شامل ہیں ،سول انتظامیہ کی مدد کیلئے آنے والی فوج سول انتظامیہ کے اختیارات سلب نہیں کرسکتی، تمام قیدیوں کی تفصیلی معلومات فراہم کی جائے ،فوج بلائے جانے کے قوانین کے حوالے سے تیاری کر کے آئیں. عدالت نے حراستی مراکز میں قید قیدیوں کی تفصیلات طلب کیں۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ فاٹا پاٹا اصلاحات کیس کی سماعت کی۔ بنچ میں جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس قاضی فائز عیسی بھی شامل ہیں۔
مقدمے کی سماعت کا آغاز ہوا تواٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسی پر اعتراض اٹھا دیا اٹارنی جنرل نے کہا میرا بنچ پر اعتراض ہے، بنچ میں موجود ایک جج نے میری ذاتی سے متعلق رائے دی۔ جج نے وفاق، وزیراعظم اور صدر مملکت پر تعصب کا سوال اٹھایا. چیف جسٹس نے کہا جو بات آپ کررہے تھے وہ صرف ایک کیس سے متعلق ہے، جج صاحب کی اپروچ ہر مقدمے میں ایک جیسی نہیں ہوسکتی۔ اٹارنی جنرل نے کہا عدالتی فیصلے میں فوج کے دائرہ اختیار سے تجاوز پر بات کی گئی، مجھ پر بھی مخصوص الزامات لگائے گئے، افواج پاکستان پر الزامات لگائے گئے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا یہ آپ کا ذاتی مقدمہ نہیں ہے اٹارنی جنرل نے کہا ملک کے وزراء، پر تعصب کی بات کی گئی میں بے چین ہوں،مجھے حق حاصل ہے میں اعتراض اٹھاؤں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جج کی اپنی صوابدید ہے وہ اعتراض لگنے پر الگ ہو، میں نے منصب سنبھالنے کے بعد پہلے خطاب میں کہا تھا شفافیت برتنے کیلئے بنچ بناؤں گا، اس بنچ کی تشکیل اسی تناظر میں ہے
جسٹس گلزار احمد نے کہا یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے جس میں اٹارنی جنرل نے ایک جج کی بنچ میں موجودگی پر بے چینی کا اظہار کیا،آپ نے عدالت میں وفاق کے نمائندے کے طور پر عدالت میں معاونت کرنی ہے. چیف جسٹس نے کہا ہم نے آپ کا اعتراض سن لیا آپ دلائل کا آغاز کریں،یہ مقدمہ بنیادی حقوق سے متعلق ہے،اس مقدمے میں زیر حراست لوگوں کے حقوق کا سوال ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا میں دلائل نہیں دوں گا. چیف جسٹس نے کہا آپ دلائل نہ دیں ہم کسی اور فریق کے وکیل کو سن لیتے ہیں،عدالت نے اٹارنی جنرل کا اعتراض مسترد کردیا. پرائیوٹ پارٹی کے وکیل نے دلائل دیے۔
واضح رہے اٹارنی جنرل نے جس مقدمے کی بات کی وہ سپریم کورٹ کے دس رکنی فل کورٹ کے سامنے زیر سماعت ہے،، کیا زیر سماعت مقدمے کے میرٹس پر کسی اور مقدمے میں بات کی جاسکتی ہے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے۔