سی پیک پر امریکہ چین جھگڑا کیوں؟
Reading Time: 4 minutesپاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ پاکستان و چین کی اقتصادی راہداری کا منصوبہ دونوں ملکوں کی گہری شراکت داری اور ایک دوسرے کے مفادات کو سمجھنے سے وابستہ ہے جس کا اندرونی و بیرونی سیاست سے تعلق نہیں۔
سنیچر کو ٹوئٹر پر پاکستانی وزیر نے لکھا کہ ’سی پیک پاکستان کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کا ستون ہے جو اس کے اندرونی و بیرونی رخوں سے جڑا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ کئی طرح سے یہ ایک منفرد شراکت داری ہے جو جذباتیت پر مبنی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے مفادات کو سمجھنے کا معاملہ ہے۔
پاکستان کی وفاقی وزیر کے اس بیان کو چین اور امریکہ کے سفارت کاروں کے ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ پر دیے گئے حالیہ بیانات کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ گذشتہ روز جمعے کو پاکستان میں چین کے سفیر یاؤ جِنگ ایک تقریب میں کہا تھا کہ سی پیک پاکستان اور چین دونوں کے مفاد میں ہے اور دونوں ملکوں کے ذرائع ابلاغ کو سی پیک کے حوالے سے منفی پروپگینڈے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔
چینی سفیر کے سی پیک پر بیان سے ایک روز قبل امریکی نائب سیکریٹری برائے جنوبی اور وسط ایشیائی امور ایلس ویلز نے کہا تھا کہ چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن وہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو سامنے نہیں لاتا اس لیے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہئیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں تھینک ٹیک ولس سینٹر میں ایک تقریر کے دوران ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ سی پیک کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو اس وقت نقصان پہنچے گا جب چار سے چھ سال بعد پاکستان کو قرضوں کی مد میں ادائیگیاں کرنا پڑیں گی۔
ایلس ویلز کے مطابق اگر یہ ادائیگیاں موخر بھی کر دی گئیں تب بھی یہ پاکستان کی معاشی ترقی پر منڈلاتی رہیں گی۔
امریکہ کی جانب سے اس سے قبل بھی ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ کے بارے میں منفی بیانات سامنے آتے رہے ہیں جبکہ پاکستان میں بھی بعض معاشی تجزیہ کاروں نے چینی قرضوں پر عائد شرائط اور شرح سود کے بارے میں سوالات اٹھائے تھے تاہم پاکستانی ذرائع ابلاغ میں اس پر آزادانہ رائے شائع کرنے میں محتاط رہنے کی ہدایت کی جاتی رہی ہے۔
پاکستان میں ’سی پیک‘ شروع کرنے کا کریڈٹ سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن لیتے رہے ہیں تاہم ملک کی فوجی سٹیبلشمنٹ کو اس راہداری یا منصوبے کا سب سے اہم شراکت دار سمجھا جاتا ہے۔
’سی پیک‘ کے منصوبے کا نیا سربراہ لگانے کے حوالے سے حال ہی میں ریٹائرڈ ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا نام بعض ذرائع ابلاغ نے رپورٹ کیا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین کا ردعمل بھی سامنے آیا ہے۔
سینیئر صحافی اور الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین ابصار عالم نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ عاصم باجوہ جیسے افسر اس عہدے کو قبول نہیں کریں گے۔
امریکی نائب سیکریٹری ایلس ویلز کے بیان کے بعد پاکستان اب ایک بار پھر چین اور امریکہ میں سے ایک دوست کو چننے کی بحث شروع ہو گئی ہے۔
حال ہی میں پاکستان کے وزیراعظم اور فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی امریکی صدر سے ملاقات کے بعد پاکستان میں فوجی سٹیبشلمنٹ کی جانب سے امریکیوں کے لیے رویہ تبدیل ہونے باتیں ہونے لگی تھیں مگر موجودہ بدترین معاشی بحران میں اب پاکستان کی حکومت اور فوج دونوں کے لیے چین اور امریکہ سے تعلقات میں توازن برقرار رکھنا تنے ہوئے رسے پر چلنے کے مترادف ہوگا۔
پاکستان کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کو امریکی پالیسیوں کی سخت ناقد سمجھا جاتا ہے اس لیے کئی مبصرین ان کی ٹویٹ کو ذاتی رائے بھی قرار دیتے ہیں تاہم شیریں مزاری نے بھی اپنی ٹویٹ میں انتہائی محتاط الفاظ کا چناؤ کیا ہے۔
پاکستان میں چینی سفیر نے کہا تھا کہ چین نے سیاسی مقاصد یا مخصوص حکومتوں سے بالاتر ہو کر ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے اور کبھی بھی ایسے وقت پر پاکستان سے ادائیگی کا تقاضا نہیں کریں گے جب ایسا کرنا پاکستان کے لیے مشکل ہو۔ سفیر کا کہنا تھا کہ دوسری جانب یہ آئی ایم ایف ہے جس کی قرضوں کی ادائیگی کا سخت نظام ہوتا ہے۔
چینی سفیر نے سوال اٹھایا کہ ’جب 2013 میں پاکستان میں تونائی کا شدید بحران تھا اور چین ملک میں پاور پلانٹس لگا رہا تھا تو اس وقت امریکہ کہاں تھا۔ امریکی کمپنیوں نے اس وقت وہاں پر پاور پلانٹ کیوں نہیں لگائے؟‘
چینی سفیر نے کہا کہ امریکہ نے پاکستان کو امداد اپنی سیاسی ترجیحات کی بنیاد پر معطل کیوں کی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں سی پیک پر گفتگو کرتے ہوئے امریکی نائب سیکریٹری ایلس ویلز نے کہا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے تاہم پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان کو طویل المدتی معاشی نقصان ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے امریکہ کے پاس بہتر ماڈل موجود ہے جس کے تحت نجی امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کر کے وہاں مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچائیں اور حکومتی امداد سے پاکستانی معیشت کو مستحکم کیا جا سکتا ہے۔
ایلس ویلز نے بتایا کہ پاکستان امریکہ کے لیے اقتصادی طور پر ایک اہم ملک ہے اور اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آئندہ سال امریکی محکمہِ کامرس کے 15 تجارتی وفد پاکستان آئیں گے۔
ایلس ویلز نے سی پیک کے حوالے سے متعدد مثالیں بھی دیں تھیں جہاں ان کے خیال میں پاکستانی مفادات کو ترجیح نہیں دی گئی۔ ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ سی پیک کے سب سے بڑے پروجیکٹ، کراچی سے پشاور تک ریل سروس کو بہتر بنانے کے ٹھیکے کی قیمت ابتدا میں 8.2 ارب ڈالر تھی، بعد میں پاکستانی وزیرِ ریلوے نے کہا کہ اسے 6.2 پر لایا گیا ہے تاہم حالیہ میڈیا رپورٹس میں یہ 9 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عوام کو یہ کیوں نہیں پتا کہ اس کی قیمت کیوں بڑھائی گئی ہے۔
چینی سفیر نے اس بارے میں اپنے بیان میں کہا کہ یہ قیمت صرف ایک تخمینہ ہے اور اس کی حتمی قیمت پروجیکٹ کے دوسرے مرحلے میں طے ہونا ہے۔
ایلس ویلز نے ایک اور الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک منصوبے پاکستانیوں کے لیے نوکریاں نہیں پیدا کر رہے جس کے جواب میں چینی سفیر کا کہنا ہے کہ چینی پروجیکٹس میں اب تک 75 ہزار پاکستانیوں کو نوکریاں مل چکی ہیں اور آنے والے دنوں میں مزید لاکھوں نوکریاں پیدا ہوں گی۔