پاکستان24 متفرق خبریں

فوج کے حراستی مراکز: ججوں کو متاثر کرنے کی ویڈیو

نومبر 25, 2019 3 min

فوج کے حراستی مراکز: ججوں کو متاثر کرنے کی ویڈیو

Reading Time: 3 minutes

پاکستان کی سپریم کورٹ نے کہا ہے خیبر پختونخوا میں حراستی مراکز اور فوج کے قیام کو برقرار رکھنے کے لیے وفاقی حکومت کی قانون سازی تک آئین پاکستان کو معطل نہیں کرسکتے، اکیسویں ترمیم کیس میں عدالت کو ایک ویڈیو دکھائی گئی جس کا بڑا اثر پڑا، اٹارنی جنرل کیا اس مقدمے میں بھی ججوں کے ذہنوں کو متاثر کرنے کے لیے ویڈیو دکھائیں گے؟

رپورٹ: جہانزیب عباسی

سپریم کورٹ میں خیبر پختونخوا کے حراستی مراکز اور فو ج کے قیام کو برقرار رکھنے سے متعلق کیس میں ویڈیو کا ذکر بھی ہوا۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انور منصورکو مخاطب کرتے ہوئے کہا آپ نے ہمیں ایک ویڈیو دکھانی تھی ۔ اٹارنی جنرل بولے میں کل ویڈیو دکھاﺅں گا۔

چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”کیا ہمارے ذہنوں کو متاثر کرنے کے لیے ویڈیو دکھائیں گے، جب اکیسویں ترمیم کا مقدمہ زیر سماعت تھا اُس وقت سانحہ آرمی پبلک سکول ہوچکا تھا، اکیسویں ترمیم کیس میں ایک ایک ویڈیو دکھائی گئی جس کا بڑا اثر پڑا۔“

کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا اس وقت صوبہ پختونخوا میں کون سا قانون نافذ ہے۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا اس وقت دو ہزار گیارہ ایکٹ نافذ ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو ہزار گیارہ قانون وفاقی ہے جو صدر مملکت نے نافذ کیا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صدر مملکت نے قانون فاٹا میں رائج کیا تھا ، آئینی ترمیم کے بعد فاٹا ختم ہو چکا ، جب فاٹا ختم ہوچکا تو اُس میں رائج قانون کیسے برقرار رہ سکتا ہے ۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم جو قانون بنا رہے ہیں اُس میں سقم دور کریں گے ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ فرضی قانون بنانا اٹارنی جنرل کا کام کب سے ہوگیا ، قانون بنانے کیلئے وزارت قانون موجود ہے، کل اگر یہ قانون عدالت میں چیلنج ہوا تو اٹارنی جنرل نے حکومت کا دفاع کرنا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان کو اپنی بات کرنے دی جائے۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور نے مسلم لیگ ن کے آخری دور میں کی گئی آئینی ترمیم پر بات کرتے ہوئے کہاپچیسویں ترمیم کی منظوری میں جلد بازی کا مظاہرہ کیا گیا، آئینی ترمیم سے قبل غیر ریاستی عناصر اور کالعدم تنظیموں سے نمٹنے کیلئے غور و فکر نہیں کیا گیا ، فاٹا پاٹا کا انضمام تو کر دیا گیا لیکن غیر ریاستی عناصر اور کالعدم تنظیمیں موجود رہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئینی ترمیم میں ایسی کوئی شق نہیں تھی جس میں حراستی مراکز کے قیام کو برقرار رکھا جائے۔

جسٹس گلزار احمد نے کہا گیارہ سال بعد حراستی مراکز کی قانونی حیثیت جانچنے کا مقدمہ آیا۔

جسٹس گلزار احمد نے سوال اٹھایا پچیسویں ترمیم کے بعد وفاقی حکومت نے قانون سازی کیوں نہیں کی؟ مجلس شوریٰ سے قانون کو منظور کروایا جاتا ،قانون بنانا حکومت کا کام ہے۔

چیف جسٹس زیر لب مسکراتے ہوئے بولے بنیادی طور پر یہ آپکا کام نہیں ہے۔اٹارنی جنرل کیپٹن ریٹائرڈ انور منصور نے کہا قانون سازی کیلئے عمل جاری ہے تین سے چار ماہ کا وقت لگے گا۔

چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ بولے کیا کہ ہم آئین پاکستان کو چار ماہ کیلئے معطل کر دیں؟ پچیسویں ترمیم میں حراستی مراکز اور فوج کے قیام بارے سابقہ قوانین کو تحفظ نہیں دیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت تقریبا ایک ہزار افراد حراستی مراکز میں قید ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا کہ یہ مقدمہ ریاست کی بقا اور شہریوں کی آزادیوں سے متعلق ہے، یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ سنہ 2011 ریگولیشن کی حیثیت موجود ہے، آپ حراستی مراکز میں ملاقاتوں اور طبعی سہولیات کی بات کر رہے ہیں پتہ نہیں عملی طور پر ایسا ہورہا ہے یا نہیں۔

کیس کی سماعت منگل دن ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی گئی۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے