جنید حفیظ کے لیے واویلا کیوں؟
Reading Time: 2 minutesپاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کی سیشن کورٹ کی جانب سے سابق لیکچرار جنید حفیظ کو توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد ان کے نام کا ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ ہے اور ہزاروں صارفین نے اس فیصلے پر اظہار خیال کیا ہے۔
کراچی سے محمد مہدی نامی صارف نے لکھا ہے کہ جس وقت ایک کروڑ پاکستانی بہتر مستقبل کے لیے ملک چھوڑ کر گئے، جنید حفیظ امریکہ سے فل برائٹ سکالرشپ مکمل کر اپنے ملک اور لوگوں کی خدمت کے لیے واپس لوٹے۔
سنیچر کو ملتان کی سیشن کورٹ کے جج کاشف قیوم نے جنید حفیظ کو توہین مذہب کے الزام میں سزائے موت، ایک لاکھ روپے جرمانہ اور دس سال بامشقت قید کی سزا سنائی ہے۔
ملتان کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کےسابق وزٹنگ لیکچرار پر 13 مارچ 2013 میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر مذہبی دل آزاری پر مبنی ریمارکس دیے تھے۔
ایک اور صارف جہانزیب حسین نے لکھا ہے کہ جنید حفیظ پر الزام لگنے کے بعد مشتعل ہجوم نے ان کے والد کی پرنٹنگ کی چھوٹی سی دکان بھی تباہ کر دی تھی۔
خدیجہ عباس نے جنید حفیظ کے مقدمے کے پس منظر کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کی اندرونی سیاست کا شکار ہوئے۔
خدیجہ عباس کے مطابق جنید حفیظ پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک فیس بک اوپن گروپ بنایا تھا جس کے وہ ایڈمن تھے اور اس گروپ میں کسی صارف نے توہین آمیز مواد پوسٹ کیا جس کو بطور ایڈمن ہٹانے میں وہ ناکام رہے۔
خدیجہ عباس نے لکھا ہے کہ جنید حفیظ کے دفاع کا مقدمہ تیار کرنے والے بہادر وکیل کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا اور ان کے مقدمے میں سات جج تبدیل کیے گئے۔