کورونا وائرس کی باعزت ’’بریت‘‘
Reading Time: 3 minutesآخر وہی ہو گیا، جس کا ڈر تھا۔ ان گنت مالی اور جانی نقصان کرنے اور مزید کرنے کی ہٹ دھرمی پر قائم ’’کورونا‘‘ نامی بدنام زمانہ مجرم کو نہ صرف شک کا فائدہ دیتے ہوئے ’’وبائی‘‘ ہونے کے تمام الزامات سے بری کر دیا گیا، بلکہ اس کی لوگوں سے آزادانہ میل جول کو بھی یقینی بنانے کا فیصلہ جاری کیا گیا۔ اس سنگین کیس میں ملزم کو دندناتے پھرتے دیکھنے کے منتظر صرف وکیل استغاثہ اور وکیل صفائی ہی نہیں تھے، بلکہ انتظار کی گھڑیاں ان ’’کرونا ورونا کچھ نہیں ہے‘‘ والوں کے لئے بھی تمام ہوئیں۔ اب ’’ایسے‘‘ نہ صرف مجرم سے سرعام بغل گیر ہو سکتے ہیں بلکہ انہیں اپنے ٹھکانوں میں لے جا کر ان کی مہمان نوازی کرنے کا ارمان بھی پورا کر سکتے ہیں۔
مجرم کو ’’نقص صحت‘‘ کے خدشے کے تحت پابند سلاسل میں رکھنے کے طلب گاروں نے فیصلہ آنے سے قبل گاہے بگاہے اپنے خدشات کو درخواستوں میں ڈھالا، غدر پیش کیا کہ چونکہ مجرم کے رویے پر قابو نہیں پایا جا سک رہا، مت آزاد کریں ورنہ یہ مزید ’’بے قابو‘‘ ہوجائے گا۔
پر حضور کا اقبال بلند ہو، انہوں نے درخواست رد کر کے آزادی کے پروانے میں توجیح پیش کی کہ مجرم کے بڑے مالز میں میل جول کی ممانعت اور چھوٹی مارکیٹوں میں دو ایام کی جبرا بندش تو دراصل اس ’’بے قابو‘‘ کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انصاف کا جھولا اس دلیل پر مزید جھولایا گیا کہ اگر ملزم کورونا کے "حسن” سے بغض رکھنے والے زیب وآرائش کی شدبد نہیں رکھتے تو ان کی اس بدزوقی کی سزا ’’حامین وبا‘‘ کو بھی نہیں ملنی چاہیے۔
خیر جس فیصلے کے ہم مستحق تھے، وہ ہمیں نصیب بھی ہو گیا۔ جن کو تحفضات ہیں ان کے لئے بہتر ہے کہ ’’اجتماعی کرتوتوں‘‘ کی وجہ سے تقدیر کا لکھا یہ فیصلہ بھی ہنسی خوشی قبول کرلیں۔ اگر خود کی دل جوئی کرنے کے لئے سامان مقصود ہے، تو فیصلہ کھنگالیے یہ خوشنما نظارہ آنکھوں کے سامنے آئے گا، مجرم وائرس کی کرامات کی بدولت ملک کے تین بھائیوں کے درمیان نا صرف بھرپور اکتفا ہے، بلکہ مزید ’’حصول برکت‘‘ کے لئے ’’اب بھوک سے نہیں بلکہ کورونا سے مرنا ہے‘‘ جیسا عہد پیماں کا بھی معیاری بندوبست کیا گیا ہے۔ ویسے حیران کن تو نہیں کہ اس ’’ریاستی تین جہتی‘‘ میں چھوٹے بھائی کا ’’بھونڈا پن‘‘ مزید بکھیر کر سامنے آیا ہے، یہ لاابالہ ناگزیر وجوہات کی بنا پر پہلے بھی ماں کا پسندید نا تھا، اب تو ممتا نے اس کے تقویض کردہ واحد ڈھونگ (پالیسی بنانے اور نافز کرنا) کو بھی صیحح سے نا رچ سکنے کے باعث، بڑے اور منجھلے بھائیوں کے حوالے کر دیا ہے۔
اس فیصلے سے مسرور ہونے والوں کے تو یقینا کلیجوں میں ٹھنڈ پڑ گئی ہو گی، جن کی بازاورں میں بھاگ دوڑ کی وجہ یہ خدشہ تھا کہ کہیں حالیہ تبدیلیوں کے بعد جنم لینے والی اس ’’نئی دنیا‘‘ میں انہیں ستر پوشی کے لوازمات پورے کرنے کے لئے بابا آدم اور اماں حوا کے متروک طریقوں سے ہی استفادہ نا کرنا پڑ جائے۔
ان لوگوں کو ’’محفوظ‘‘ راستہ دکھانے والوں کو تو اب تعلیمی اداروں کے قفل کھولنے کے احکمات بھی صادر کرنے چاہیں، کہ کہیں بھوکوں کی بھوک مٹتے دیکھ کر، پیاسوں کو زر کے عوض پانی پلانے والے ہی پیاس سے نا مر جائیں۔ اور تو اور اب تو دین انسانیت کا نقشہ بگاڑنے والے ان حوارین کی روحیں بھی مزید کچھ شاد ہو گئی ہوں گیں، جو فیصلے آنے سے قبل اپنے آپ کو صرف اس لئے تنگ دستی کا شکار سمجھتے تھے کہ انہیں نزلہ گرانے کے لئے محدود جگہ میسر تھی، اب تو ان کے سامنے وسیع و عریض میدان کھل گیا ہے۔
آخر میں عرضی لکھنے کی تاویل کی طرف آوں تو بنیادی مقصد تو اس فیصلے پر جشن منانے والوں کو مبارک باد دینا تھی۔