ہو گئی عزت ووٹ کی؟
Reading Time: 5 minutesبھوکے ننگے، تھکے ہارے ووٹروں کو بار بار قطار میں کھڑے ہو کر ایسا ووٹ کیوں ڈالنے کے لیے کہا جائے جس نے آخر کار چوری ہی ہونا ہے، اور اپوزیشن تو ویسے بھی اس چوری پر نیم دلانہ واویلے کے سوا کچھ نہیں کر سکتی، ایسے میں ووٹروں کو اور ان کے ووٹ کی عزت لٹنے سے بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ رات کے وقت شاہراہ جمہوریت (موٹروے) پر ہی نہ نکلیں جہاں ان کی عزت لٹنے کا خدشہ ہو تاکہ 2018 کے ‘شفاف ترین انتخابات’ میں منتخب ہونے والی اسمبلی کے معزز اراکین کے عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے ایک نیا وزیراعظم منتخب کر سکیں۔
آخر اسمبلی کے اندر ان پاک صاف ووٹوں کو عزت دینا بھی تو ن لیگ کا مذہبی فریضہ ہے، جہانگیر ترین ائیر لائن کے گیارہ ایم این اے اور تیس سے زائد ایم پی ایز مسافر بھی تو ترین کے نام پر عوام کے ووٹ لے کر آئے تھے ناں. مسلم لیگ قاف ہو یا ایم کیو ایم نیا پاکستان سب کی حال میں جمہوری جدو جہد مسلم لیگ ن کی ماضی کی جمہوری جد جہد سے کچھ مختلف تو نہیں، تو ان گروپوں کے اسمبلی میں موجود ووٹوں کو عزت دئیے بغیر ہم ” ووٹ کو عزت“ کیسے دے سکتے ہیں.
جنرل ضیا الحق جیسے ایک فوجی آمر کو حکومت اور اسمبلی برطرف کرنے کا اختیار اور اس کی آئین سے غداری کو تحفظ دینے والی آٹھویں آئینی ترمیم کو 1985 کی اسمبلی میں پاس کر کے بھی ہم نے ووٹ کو عزت دی تھی، اس کے بعد ہم نے 1990 کے الیکشن چوری کرنے والے کو 1988 میں ہی تمغہ جمہوریت عطا کر کے ووٹ کو عزت دی تھی، اس کے بعد ہم نے جنرل مشرف جیسے فوجی آمر کی 12 اکتوبر والی آئین سے غداری کو تحفظ دینے والی سترہویں ترمیم کو اسمبلی سے منظور کر کے ووٹ کو عزت دی، پھر فوجی عدالتوں کا آئینی بل بھی ایسی ہی ایک اسمبلی سے پاس کروایا، ایک فرد واحد سپہ سالار کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے بھی اس اسمبلی نے قانون سازی کی، اور اب جب جعلی احتساب کا شکنجہ ویسے ہی اپنے انجام کو پہنچ رہا ہے تو ہم ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کے بڑے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو حکومت کی تبدیلی کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رہے ہیں-
یہ ناداں گر گئے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا
اگر اسٹیبلشمنٹ سے فوری اور براہ راست ٹکر نہ لینا بھی کسی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اسٹیبلشمنٹ کو اس کے عزائم کی لیے اپنا کندھافراہم کریں. رواں سال نومبر میں کمانڈ کی تبدیلی سے تقریباً تین ماہ پہلے عمران خان نئے سپہ سالار کے نام کا اعلان کر سکتے ہیں یعنی اگست کے آخر تک. کیا عمران خان اس وقت تک اقتدار میں رہ پائیں گے؟ اپوزیشن کو بتایا جا رہا ہے کہ خان صاحب تب تک اقتدار میں رہے تو اپوزیشن کے عاشق پشاوری طبیعت والے کمانڈر کو سپہ سالار لگایا جا سکتا ہے اس لیے عام انتخابات کا انتظار یا یہ سوچ کہ عمران خان اگست کے آخر تک نئے سپہ سالار کو نامزد کرنے سے پہلے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کریں گے بے سود ہے، ویسے اگر عمران خان کا اپوزیشن کی لانگ مارچ کے بعد اپریل میں بھی اسمبلیاں توڑنے کا امکان ہو تو بھی تین ماہ کے اندر یعنی جولائی میں منتخب ہونے والی نئی حکومت نئے سپہ سالار کا نام دینے یا موجودہ کو مزید توسیع دینے کی پوزیشن میں ہو گی، کوئی بعید نہیں کہ ایسے میں ایک اور ویسا ہی تمغہ جمہوریت تیار ہو اور اب کی بار ایک مختلف حکمران جماعت کی طرف سے، مگر یہ سب کچھ تو عام انتخابات کی صورت میں ہو گا جبکہ فی الوقت تو بات عدم اعتماد کی ہو رہی ہے۔
تو کیا اپوزیشن کو پشاوری کمانڈر کے خوف سے اس کے ہی باس سے مدد کی توقع رکھنی چاہیے؟ ماضی میں جو کچھ بھی ہوتا رہا کیا اس میں صرف پشاور والے کا قصور تھا؟ کیا عدم اعتماد سے تبدیلی کے بعد جو نیا وزیر اعظم آئے گاس نے آئندہ کے سپہ سالار کے نام کا فیصلہ کرنا ہو گا یا پھر اگست کے آخر میں اس مرحلے سے تین ماہ پہلے (مئی میں) وہ الیکشن کا اعلان کر دے گا تاکہ عام انتخابات کے بعد اصلی وزیراعظم یہ بڑا فیصلہ کرے؟ کیا پشاور والے کمانڈر کو کھیتوں میں لگے اپوزیشن کے کوّوں کو ڈرانے والے انسان نما لکڑی کے ڈھانچے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے اور اسٹیبلشمنٹ ایک نئے مخصوص کردار کے ساتھ جلوہ افروز ہونے کو تیار ہے؟
جنرل مشرف کے بعد آج تک کے تمام سپہ سالاروں کے بارے میں بھی یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا کہ وہ جنرل مشرف سے بہت مختلف ہیں، بڑے جمہوریت پسند ہیں، اللہ کے فضل سے ان تمام کمانڈروں نے اپنے قول فعل سے پانچویں نسل کی اس دو نسلی جنگ کا بھرپور مقابلہ کیا اور اسے غلط ثابت کیا۔ اب کی بار حکمت عملی کچھ مختلف ہے اور وہ یہ کہ ‘میں بدستور نہیں تو پشاور آ جائے گا یا پھر کوئی اور’ نہیں تو پشاور آ جائے گا۔ دودھ کے جلے اپوزیشن والے چھاج کو بھی پھونک پھونک کر پینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ سو پیاز کھانے کے بعد سو جوتے سکون تو دیتے ہیں ناں.
اب اس عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ووٹ کی اجتماعی بے حرمتی کرنے والوں سے جو ووٹ کی عزت خیرات میں مانگی جا رہی ہے اس سے ثابت ہے کہ ہماری قوم کولھو کے بیل کی مانند دائروں میں گھوم رہی ہے،فوری اور صاف شفاف انتخابات کے مطالبے سے ہٹ کر عدم اعتماد اور اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ اور اس کے مہروں سے مستقبل کے لیے وعدے وعید واضح اشارہ ہیں کہ گذشتہ تین سال میں جو کھلواڑ اس قوم کے ساتھ کیا گیا اس کاکبھی احتساب نہیں ہو سکے گا، یہ انیس سو نوے کے عشرے کی سیاست کا ری پلے ہو رہا ہے، اپوزیشن کی جماعتیں اپنے زورِ بازو پر اعتماد نہیں رکھتی اور اصولوں کو سیاسی مصلحت کی بھینٹ چڑھانے کو تیار ہیں، سینیٹ میں اکثریت کے باوجود دو نمبری کر کے حکومتی قوانین کو منظور کروانے کو اور کیا سمجھا جائے؟ اب چلے ہیں لوٹوں کی مدد سے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد لانے، اگر ناکام ہو گئے تو کس منہ سے اصولوں کا لانگ مارچ کریں گے؟
کیا طوفان آ جاتا اگر عدم اعتماد کی تحریک نہ لائی جاتی؟ کیا عمران خان پشاوری سرکار کو آرمی چیف لگا دیتا؟ تو ہائے ہائے اپوزیشن کا کیا بنتا۔ جو اپوزیشن خود کو اتنا کمزور سمجھتی ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے ایک انتہائی سیاسی عزائم اور سرگرمیوں والے شخص کو سپہ سالار لگا دیا جائے اور وہ کچھ نہ کر سکے تو پھر یہ لانگ مارچ کا ڈھونگ کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
اپوزیشن کو عدم اعتماد کی ٹرک کی بتی پیچھے لگانے والے اسٹیبلشمنٹ اچھی طرح جانتی ہے کہ لانگ مارچ کا ہدف صرف عمران خان نہ ہوتا، اور اسی طرح فوری شفاف انتخابات میں عوامی رائے اور رد عمل بھی صرف عمران خان جیسے مہرے جیسے مہرے نہیں بلکے اس کو لانے والوں کے خلاف بھی ہوتا جس کے بعد اسٹیبلشمنٹ کو حد میں رکھنے کے لیے اضافی قانون سازی کی راہ بھی ہموار ہو جاتی۔ اس لیے اسٹیبلشمنٹ نے کھڑکی کے راستے اپنے گھر سے باہر پھینکے گئے منتخب مالکوں کو ایک ہجوم کے ساتھ مرکزی دروازے سے گھر میں واپسی کی بجائے چپکے سے اسی کھڑکی کے راستے واپس آنے کا آپشن دیا ہے جو بظاہر قبول کر لیا گیا ہے، اب اندر آنے کے بعد مالک بے شک ہجوم کے لیے گھر کا مرکزی دروازہ کھولتا رہے (عام انتخابات کا اعلان) مگر تب تک آئین کے غدار اور ناجائز قابضین کسی حد تک اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کر کے چند ٹی وی اینکروں کی طرح پھر سے مسلمان ہونے کا کامیاب ڈرامہ رچا کر ایک اور تمغہ جمہوریت کے متمنی بھی ہوں گے.
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے جس طرح اسی عطار کے لونڈوں سے مدد مانگی جا رہی ہے لگتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے خلاف عوام کے سامنے رکھی گئی اسٹیبلشمنٹ کی تحریک عدم اعتماد جلد کامیاب ہو جائے گی اور ووٹ کو عزت دینے والے فیصل واوڈا کی طرح بوٹ کو ہاتھوں میں لیے پھریں گے.