کالم

تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب!

نومبر 21, 2022 5 min

تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب!

Reading Time: 5 minutes

دارالحکومت میں ایک بار پھر ایک تھپڑ کی گونج ہے،وہ تھپڑ جو کسی کو نہیں پڑا، صرف خیالی اور خواہشانہ تھپڑ ہے، نہ کوئی نشان ہے،نہ ہی کوئی آواز، پھر بھی اس کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

”تھپڑ شریف“ اس وقت ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ ہے، سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے اور گلی محلوں میں سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والے اس خیالی اور خواہشانہ تھپڑ کو حقیقت بھی سمجھ رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ ایک اہم تقرری کے معاملے پر مار خور نے اگلی دو ٹانگیں اٹھا لی ہیں اوراپنے بڑے سینگھوں کے ساتھ ٹکر مارنے کو تیار ہے، اس کے مد مقابل ایک سیاسی شیر ہے، اول تو مارخور اور شیر کا مقابلہ بنتا ہی نہیں، ایک پہاڑوں کی چوٹیوں پر گزر بسر کرنے والا والامارخور اور دوسری جانب شیر جو کبھی جنگل کا بادشاہ ہے تو کبھی کاغذ کا شیر اور کبھی کسی سرکس میں ایک ہنٹر سے ہانکا جانے والا شیر۔

جب تک مارخور بلندی پر بیٹھا رہتا ہے کسی دوسرے جانور کے لیے اسے شکار کرنا ناممکن۔ یہ مصیبت میں تب گھرتا ہے جب بلندی سے اتر کر نیچے آ جائے تو پھر شیر کا شکار بھی بن جاتا ہے۔یہ ٹکراو نیا نہیں ہے، رواں سال ایک بار پہلے مارچ میں بغیر کسی مارچ کے جب رجیم چینج کا معاملہ گرم تھا تو اس وقت بھی ایک تھپڑ کی ہوائی اڑائی گئی تھی، جو کہ موجودہ تھپڑ کی طرح بے بنیاد، خیالی، خواہشانہ اور غیر حقیقی تھپڑ تھا۔

نہ جانے یہ تھپڑ کی افواہ پھیلانے کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔ اب ہماری موجودہ صورتحال میں دیکھ لیجیئے اس وقت نئے آرمی چیف کی تقرری دنیا کا سب سے مشکل ترین اور گھمبیر معمہ بنا ہوا ہے حالانکہ آئین اور قواعد میں متعین ہے کوئی قانونی رکاوٹ بھی نہیں۔
آئین و قانون بہت واضح ہے کہ یہ وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ کسی اہل فوجی افسر کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر تعینات کرسکتے ہیں اس پر کوئی دو رائے نہیں۔
یہ اختیار ہونے کے باوجود بھی وزیراعظم نہ جانے کیوں تذبذب کا شکار ہیں، حالانکہ جب سڑکوں پر آئی اپوزیشن کے سربراہ عمران خان نے انہیں آرمی چیف کی تقرری میں معاونت کی پیش کش کی تو ایوان اقتدار میں اس کا یہ کہہ کربہت برا منایا گیا کہ”تم ہو کون بھائی‘’۔
اب اختیار تو موجود ہے لیکن اسے استعمال کرنے کی جرات کہاں سے آئے، کہا جا رہا ہے کہ اب جبکہ فوج apolitical یعنی غیر سیاسی ہونے کا دعویٰ کر چکی ہے تو پھر اس ادارے کے سربراہ کے تقرر کو سیاسی عینک سے جانچنا اس بات کی غماز ہے کہ ہم فوج کو سیاست سے دور کرنے میں شاید سنجیدہ نہیں، اس وقت پاکستان مسلم لیگ نون کی حکومت ہے جسے اپنے مختلف ادوار حکومت میں سب سے ذیادہ چیف آف آرمی سٹاف تقرر کرنے کا منفرد اعزاز حاصل ہے اور اپنے ہی تقرر کردہ تقریبا تمام سربراہان افواج سے زچ ہونے اور گھائل ہونے کا اعزاز بھی شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ تقرری میں دودھ کے جلے لوگ چھاچھ کو بھی پھونک رہے ہیں، ہر امیدوار کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں، اہنے پرانے تجربات کی بنیاد پر آرمی چیف کے امیدواروں کو مستقبل کے آئینے میں جائزہ لے رہے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ماضی کے تجربات نے میاں برادران کو ایسے مواقع پر بہت شاکی بنا دیا ہے اور یہی شکی پن اب ایک بار پھر وجہ عناد بن کر سامنے آ رہا ہے، آرمی چیف کی تقرری میں تاخیر ہو رہی ہے، حکومت کی تمام تر توجہ صرف اس ایک فیصلے پر مرکوز ہے،دیگر کاروبار زندگی اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں۔

کورونا، سیلاب اور ملک میں ہمیشہ سے موجود ناجائز منافع خوری کے باعث ہونے والی مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ دی ہے، ملکی معیشت کے تمام اشارے سرخ رنگ میں ٹمٹما رہے ہیں،قرضوں کا بوجھ نا قابل برداشت ہو رہا ہے اور ملک ڈیفالٹ ہونے کے قریب ہے، دیوالیہ قرار دیئے جانے سے ہمارا فاصلہ صرف ایک چوتھائی دوری پر ہے، لیکن حکومت کی نظر میں صرف دو اہم امور ہیں، ایک آرمی چیف کا تقرر اور دوسرا عمران خان کو تحفہ میں ملنے والی گھڑی، مکمل شد ومد کے ساتھ صرف ان دو امور پر کام جاری ہے۔

توشہ خانہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ تقریبا ہر وزیراعظم نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، لیکن چونکہ عمران خان کے خلاف کوئی بڑا مالیاتی سکینڈل نہیں بن سکا اس لیے گھڑی کی سکینڈلائز ئیشن پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے، لیکن آرمی چیف کے تقرر کے معاملے پر پراسرار سرگرمیاں، بند کمرے میں ملاقاتیں، حکمرانوں کی کسی محترم ثمدھی اور کسی سسر محترم کی خدمات حاصل کرنا اور ان ملاقاتوں میں گارنٹر کے طور پر پراپرٹی ٹائیکون کو بھی حصہ بنا لینا ظاہر کرتا ہے کہ معاملات اتنے بھی سادہ نہیں، سینگھ پھنسے ہوئے ہیں۔

مارخور کو اگر اپنی بے نیازی کا غرورہے تو سیاسی شیر کو بھی بادشاہ ہونے کا مان ہے، فی الوقت دونوں علیحدہ علیحدہ قرطاس پر ہیں، بلکہ اپنے اپنے پیج پر رہ کر مقابل کو قائل کرنے کے خواہاں ہیں۔ تیسرا فریق اپنے گھوڑے کو جتانے کے خواب دیکھ رہے ہیں جس ریس میں پانچویں نمبر پر ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ لندن سے اب بھی وائس رائے کو شاہی پیغام یہی ملا ہے کہ کرنی اپنی ہے، معاملہ چونکہ بہت نازک ہے اس لیئے کسی مصلحت میں پڑنے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں، وائس رائے کے لیئے اب دوہری مشکل ہے، ایک جانب کالونی کے داروغہ کا خوف بھی ہے اور دوسری جانب اس سے مصلحت کے طور انسیت بھی ہے، اوپر سے سمند ر پار سے آئے احکامات و ہدایت کو نظر انداز کرنا بھی برادرانہ شفقت و محبت سے انکار کے مترادف ہو گا،بس دن و رات اسی کشمکش میں گزر ہے ہیں، کبھی سوز و ساز رومی ہے تو کبھی پیچ و تاب رازی۔

سنا ہے کہ وائس رائے نے کورونا کو بنیاد بنا کرتخلیہ کو ترجیح دی ہے تاکہ کچھ اہم ملاقاتوں سے گریز ممکن ہو سکے، اور اس اہم معاملے پر فیصلے کے لیئے نہ صرف مذید وقت حاصل کیا جا سکے بلکہ معاملے میں مزید الجھاوٗ پیدا کیا جا سکے، جو کہ پیدا ہو بھی چکا ہے، دونوں جانب سے بھنویں چڑھائی جا رہی ہیں،ہر فریق کی جانب سے مقابل کو اپنی جانب کھینچنے کی کوششیں ہو رہی ہیں، پیج تو دور کی بات، درمیانی فاصلہ بھی بہت بڑھ چکا ہے، خطرناک بات یہ ہے کہ اگر معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ نہ نمٹایا گیا، اتفاق رائے کے ساتھ نہ ہوا، فریقین کی جانب سے لچک نہ دکھائی گئی اور اتفاق رائے کے بغیر یکطرفہ فیصلہ ہو گیا تو اسکے دور رس نتائج مرتب ہو ں گے، بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی اور لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے۔

بالی وڈ ایکٹر سلمان خان ایک مووی میں ہیروئن پر فریفتہ ہوتا ہے۔ ہیروئن کمہار کی بیٹی ہوتی ہے جو مٹی کے برتن بیچتی ہے، سلمان خان ایک پولیس ٓفیسر، پہلی ملاقات پہ سلمان خان اسے مٹی کے دو گھڑوں کی اضافی قیمت دیتا ہے تو لڑکی لینے سے انکار کر دیتی ہے، سلمان خان کہتا ہے: ”پیار سے دے رہے ہیں،رکھ لو ورنہ تھپڑ مار کے بھی دے سکتے ہیں“، ہیروئن کا جواب معنی خیز تھا: ”تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب، پیار سے لگتا ہے“ِ۔

موجودہ حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اپنے پرانے احسانمندوں کے ہاتھوں گھائل ہونے کے بعد انہیں احساس ہو چکا ہے کہ اقتدار کے کھیل میں پیار کے جواب میں دھوکہ ہی ہوتا ہے، اس لیئے جو احباب اس وقت تھپڑ کی افواہیں اڑا رہے ہیں ان کے لیے عرض ہے کہ احسانمندوں کے ہاتھوں گھائل ہونے والوں کو تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا بلکہ پیار سے لگتا ہے۔

Array

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے